مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا ہے کہ امریکا اور پاکستان باہمی تعلقات پر چھائی ہوئی بداعتمادی کو دور کرنے کے لیے مثبت بات چیت میں مصروف ہیں۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دو روز قبل امریکی انڈر سیکریٹری دفاع برائے پالیسی کولِن کاہل نے سینیٹ پینل کو بتایا تھا کہ پاکستان، افغان سرزمین کو نہ صرف اپنے بلکہ دیگر ممالک کے خلاف بھی دہشت گرد، بیرونی حملوں کے لیے محفوظ ٹھکانے کے طور نہیں دیکھنا چاہتا‘۔انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان نے ہمیں اپنی فضائی حدود تک رسائی جاری رکھی ہوئی ہے اور ہم یہ رسائی کھلی رکھنے کے لیے ان سے بات چیت کر رہے ہیں‘۔وائس آف امریکا (وی او اے) ریڈیو کو انٹرویو میں معید یوسف نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ امریکا اور پاکستان تصادم کے راستے پر ہیں اور یہاں سے ان کے تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔امریکی نائب سیکریٹری خارجہ وینڈی شرمین کے حالیہ دورہ اسلام آباد کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کچھ بداعتمادی ہے جس پر دونوں فریقین کو قابو پانا ہے اور ہم ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ (وینڈی شرمین) پاکستان آئیں‘۔مشیر سلامتی نے بتایا کہ ’دونوں ممالک مربوط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور کوئی بڑا بحران نہیں ہے‘۔انہوں نے چند سابق امریکی عہدیداران نے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا کہ کابل میں طالبان کی فتح نے ایک بار پھر پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خدا کے فضل سے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہمیشہ محفوظ رہے ہیں اور ہمیشہ محفوظ رہیں گے، جبکہ اگر کوئی اس پر نیند اڑانا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔تاہم متعدد سابق امریکی عہدیداران نے ’وی او اے‘ کو بتایا تھا کہ افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے انخلا نے پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات کا سیاسی حساب کتاب تبدیل کر دیا ہے اور واشنگٹن کا انسداد دہشت گردی سرگرمیوں کے لیے اسلام آباد پر انحصار کم ہو گیا ہے۔سابق امریکی سیکریٹری دفاع اور سی آئی اے سربراہ لیون پنیٹا کا تاہم کہنا تھا کہ امریکا ۔ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ پیچیدہ رہے ہیں۔سابق صدر براک اوباما کے دور میں بطور سی آئی آئی ڈائریکٹر لیون پنیٹا کا اس وقت کہنا تھا کہ ’ہم ان کے ساتھ تعاون پر مبنی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کریں گے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب القاعدہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہے‘۔تاہم انہوں نے پاکستان پر بھارت کے خلاف فائدہ اٹھانے کے لیے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا اس نے پاکستان کو طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے بہت قریب کردیا جس نے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کے فقدان میں کردار ادا کیا۔