نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مسجد میں 51 نمازیوں کو ہلاک کرنے والے مجرم نے عمر قید کی سزا کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر پر غور شروع کردیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے’ رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق مجرم کے وکیل نے سرکاری ریڈیو کو بتایا کہ برنٹین ٹیرنٹ نے سال 2019 میں حملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔31 سالہ سفید فارم برنٹین ٹیرنٹ کو 15 مارچ 2019 میں کرائسٹ چرچ میں واقع 2 مساجد میں علیحدہ علیحدہ حملوں میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔مذکورہ واقعات میں 51 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ 40 کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔واضح رہے یہ ملک کی تاریخ میں بڑے پیمانے پر قتل کی واردات تھی۔نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار کسی قیدی کو عمر بھر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔برینٹن کے وکیل ٹونی ایلیس نے ریڈیو نیوزی لینڈ کو بتایا کہ گزشتہ سال اسے اس کے موکل کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ مقدمے کے ٹرائل کے دوران ان کے ساتھ ’انسانی اور توہین آمیز رویہ اپنایا گیا، جس کی وجہ سے اسے جرم کا اعتراف کرنا پڑا۔ایلیس جو برینٹن ٹیرنٹ کے واحد لوئر ہیں نے کورونر کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں اپنے مؤکل کی طرف سے دعویٰ کیا کہ کرائسٹ چرچ واقعے کی ہر پہلو سے تحقیقات کی گئی، جس کے بعد مناسب عمل کی پیروی کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ جب وہ فیصلے کا انتظار کر رہے تھے ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا گیا جس کے انہوں نے ایک سادہ راستہ تلاش کرتے ہوئے جرم قبول کرنےکا فیصلہ کیا۔ایلیس کا مزید کہنا تھا کہ اس عمل کا مطلب یہ تھا کہ وہ ریمانڈ کے دوران غیر انسانی اور توہین آمیز رویے کا شکار تھے جس کی وجہ سے فیصلے کو غیر منصفانہ بنایا گیا۔برینٹن کے وکیل نے بتایا کہ انہوں نے اپنے موکل کو ہدایت کی ہے کہ وہ بغیر پے رول کے عمر قید کی سزا کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کریں کیونکہ ’اسے ناامیدی کی سزا‘ قرار دیا جاتا ہے جو زندگی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ایلیس نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ’ رائٹرز‘ کو بتایا کہ ان کے موکل نے ایمیل کے ذریعے انہیں ہدایت دی ہے کہ مقامی میڈیا کے مخصوص آوٹ لیٹس سے بات کرے۔برینٹن ٹیرنٹ ایک آسٹریلوی شہری ہے، جس نے نماز جمعہ کے دوران کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد پر حملہ کیا اور ہیڈ ماؤنٹیڈ کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے واقعے کو براہِ راست نشر کیا تھا۔