برطانوی حکومت اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا کچھ طبی آلات میں نسلی تعصب کی وجہ سے سیاہ فام اور ایشیائی لوگ کورونا وائرس سے غیر متناسب طور پر بیمار اور مر رہے ہیں۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری صحت ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ عالمی وبا نے تعصب کے ساتھ صحت کی سہولیات سے متعلق فرق اور صنفی خطوط کی نشاندہی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں تیسرے درجے کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں سیاہ فام اور اقلیت سےتعلق رکھنے والے افراد کو منتقل کیا جارہا ہے جس میں ان کی نصف آبادی سے دگنی تعداد موجود ہے۔محکمہ کے اعداد و شمار نے شعبے اور طبی سہولیات کو مد نظر رکھتے ہوئے آخذ کیا ہے کہ مارچ 2021 سے شروع ہونے والی عالمی وبا میں سیاہ فام اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی اموات کی شرح زیادہ ہے جبکہ ان کے مقابلے میں سفید فام افراد میں اموات کی شرح کم دیکھی گئی ہے۔ساجد جاوید کا کہنا تھا کہ تحقیق میں ایک مسئلہ سامنے آیا جس کے مطابق کھال کے ذریعے بلڈ آکسیجن کی پیمائش اور نبض کی جانچ کے آلات گہری رنگت کی کھال پر کام نہیں کرتے۔انہوں نے اسے عالمی نظام کا مسئلہ قرار دیا۔ساجد جاوید نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اسکائے نیوز‘ کو بتایا کہ ’اب میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ کسی نے جان بوجھ کر کیا ہے، میرے خیال سے طبی آلات میں یہ مسئلہ نظام کی وجہ سے ہے‘۔انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ طبی کتابوں کے ساتھ مزید بڑھ سکتا ہے۔برطانوی خبر رساں جریدے ’سنڈے ٹائمز‘ نے لکھا کہ انہوں نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ جانبدارانہ عمل یا ایسا نادانستہ طور پر بھی ہوسکتا ہے، لیکن اس سے صحت سے متعلق خراب نتائج موصول ہوں گے جو ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔انہوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے امریکی ہم منصب صحت و انسانیت کی خدمات کے سیکریٹری زیویئر بیسیرا اور دیگر ممالک کے عہدیداران کے ساتھ کام کریں گے تاکہ صحت کے نظام میں جانبداری کا اندازہ لگایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے جائزے میں بھی صنفی جانبداری کو مد نظر رکھا جائےگا اور اس کے نتائج جنوری کے اختتام میں رپورٹ کیے جائیں گے۔برطانیہ میں ایک لاکھ 43 ہزار سے زائد کورونا اموات ریکارڈ کی گئی ہیں یہ روس کے بعد یورپ میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔اس وقت یورپ دنیا کا واحد حصہ ہے جہاں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے، متعدد ممالک میں کورونا وائرس کےپیش نظر ایک بار پھر سفری پابندیوں کا اطلاق کردیا گیا ہے۔آسٹریا میں آج (پیر) سے ملک بھر میں لاک ڈاون نفاذ کردیا جائےگا جبکہ نیدر لینڈ میں ہفتے کے اختتام پر حکومت کے غیر ویکسینیٹڈ افراد کو مختلف مقامات میں داخلے سے روکنے کے اعلان کے بعد پُر تشدد احتجاج بھی کیے گئے۔تاہم، یو کے میں اموات تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ہسپتالوں میں داخل ہونے کا عمل آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے۔برطانوی وزیر اعظم بورس جونسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے دیکھا کہ حکومت کو سرد موسم میں پلین بی کی طرف بڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، جس میں شہریوں کو ماسک پہننے اور گھروں سے کام کرنے کی ضرورت تھی۔کورونا وائرس کے کیسز میں شرح میں برطانیہ کئی ماہ سے اپنے پڑوسی ممالک سے آگے ہے اور کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ملک بہتر صورت حال میں ہے۔اینڈن برگ میں بپلک ہیلتھ یونیورسٹی کی پروفیسر لینڈا باؤلڈ کا کہنا ہے کہ برطانیہ اپنے یورپی پڑوسیوں کے مقابلے طویل عرصے سے تیزی سے منتقل ہونے والے ڈیلٹا ویرینٹ سے لڑ رہا ہے اور ’کیونکہ ہمارےپاس ماضی میں متعدی مریضوں کی تعداد زیادہ تھی اس لیے شاید ہماری آبادی میں قوت مدافعت زیادہ ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’برطانیہ میں اب 40 سال سے زائد عمر افراد کو بوسٹر ویکسین ڈوسز بھی لگائے جارہے ہیں‘۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے میڈیسن کے پروفیسر جوہن بیل کا کہنا ہے کہ ’انہیں نہیں لگتا کہ یوکے کو کرسمس میں ایک اور لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ پچھلے سال کرسمس میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا تھا‘۔انہوں نے غیر ملکی ریڈیو اسٹیشن ’ٹائم ریڈیو‘ پر کہا کہ میرا مشورہ ہے آپ کرسمس کی تیاری جاری رکھیں کیونکہ سب کچھ ٹھیک رہےگا۔انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر آپ چھٹیاں آسٹریا میں منانے کا سوچ رہے ہیں تو مسائل اتنی آسانی سے حل نہیں ہوسکتے‘۔