سری نگر:کشمیری سیب کے بڑھتے ہوئے نقصانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کئی فروٹ ایسوسی ایشن کے عہداران نے مرکزی سرکار سے اپیل کی کہ وہ ہندوستانی بازار میں ایرانی سیب کی درآمد پر پابندی عائد کرے۔کے این ایس کے مطابق کشمیر ویلی فروٹ گروورز ڈیلر ایسوسی ایشن اور نیو کشمیر فروٹ ایسوسی ایشن کے صدور نے میڈیا کو بتایا کہ بھارت میں ایرانی سیب کی سپلائی نے مارکیٹ میں کشمیری سیب کے ریٹ کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس کے باعث میواہ صنعت سے وابستہ افراد شدید مالی بحران سے دوچار ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف بازاروں میں ایرانی سیبوں کی دستیابی کی وجہ سے متعدد فروٹ منڈیوں میں کشمیری سیبوں کی مانگ تشویشناک حد تک کم ہوئی ہے اور اس عمل سے نہ صرف گروروس کو نقصان ہورہا ہے بلکہ جموں کشمیر کی اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ مقامی اور بیرون ریاست کی مختلف منڈیوں میں گزشتہ چند دنوں میں سیب کے نرخ 1200 روپے فی ڈبہ سے کم ہو کر 600 روپے تک پہنچ گئے ہیں جبکہ سیب کے ایک ڈبے کی پیداواری لاگت 600 روپے ہے، اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ چارجز فی ڈبہ 300 روپے ہیں اور جی ایس ٹی 12 فیصد سے بڑھ کر 18 فیصد ہو گیا ہے تو پھر ایک کاشتکار یا گروور اپنی پیداوار کو اتنے کم نرخوں پر کیسے بیچ سکتا ہے تاہم ایسوی ایشن کے صدور نے بتایا کہ اگرچہ متعدد بار مرکزی سرکار کو اس سنگین معاملے کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی تاہم مرکزی سرکار نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور باغ مالکان اور فروٹ گرورس شدید پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر بشیر احمد نے مزید بتایا کہ ہم نے مرکزی وزیر زراعت سے ملاقات کی لیکن انہوں نے سپلائی روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی تاہم پھر ہم نے وزیراعظم اور ایل جی کے دفتر کو تحریری طور آگاہی کی لیکن ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم میک ان انڈیا کا نعرہ لگاتے ہیں تو پھر ہم باہر سے سامان کیوں درآمد کر رہے ہیں جب کہ ہماری اپنی پیداوار ہے ہمیں امید ہے کہپی ایم اپنے نعرے کو برقرار رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ باغبانی کی صنعت جموں و کشمیر کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور حکومت کو اس شعبے کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے جبکہ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میواہ صنعت نہ صرف لاکھوں لوگوں کو روز گار فراہم کررہی ہے بلکہ جموں کشمیر کی معاشی حالت بہتر بنانے میں ایک قلیدی رول ادا کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ واحد شعبہ ہے جو ان مشکل ترین حالت میں زندہ رہا ہے اور تقریباً 70 سے 80 فیصد آبادی اس صنعت سے وابستہ ہے اور اس سے اپنی روزی روٹی کما رہی ہے اور اگر اس صنعت کو نقصان ہوا تو پھر سارا سسٹم اسکی زد میں آئے گا۔ایسوی ایشن کے صدر نیکہا کہ ان تک یہ معلومات پہنچی ہے کہ کچھ لوگ ایرانی سیب کو ممبئی اور چنئی کی بندرگاہوں پر ذخیرہ کرتے ہیں جنہیں بعد میں وہ کشمیری سیبوں کے مقابلے ہندوستانی منڈیوں میں کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایران میں ایک کلو سیب کی قیمت 20 روپے ہے لہٰذا یہ لوگ سیب درآمد کرتے ہیں اور پھر انہیں یہاں کے کولڈ اسٹورز میں ذخیرہ کرتے ہیں اور یہاں اس پر ٹیکس لگنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا ہے۔انہوں نے ہم وزیر اعظم سے اپیل کرتے ہیں کہا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور مارکیٹ میں ایرانی سیب کی درآمد پر پابندی لگائیں۔