نئی دہلی:سپریم کورٹ نے جمعرات کو پنجاب کانگریس کے سابق صدر اور سابق بین الاقوامی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو 34 سال قبل ایک کار سوار سے مار پیٹ اور موت کے معاملے میں ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔جسٹس اے جسٹس ایم کھانولکر اور سنجے کشن کول کی بنچ نے ایک ہزار روپے جرمانے پر سدھو کو بری کرنے کے سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے پر نظر ثانی کے بعد ان کی سزا بڑھاکر ایک سال قید بامشقت میں تبدیل کردیا۔قابل ذکر ہے کہ 27 دسمبر 1988 کو پنجاب کے پٹیالہ میں سدھو نے 65 سالہ گرنام سنگھ کو کار سے گھسیٹ کر مارا تھا۔ بعد میں علاج کے دوران گرنام سنگھ کی موت ہوگئی تھی۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں 15 مئی 2018 کو اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ اس وقت عدالت نے سدھو کو تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 323 کے تحت مجرم قرار دیا تھا اور جرمانے کے طور پر 1000 روپے جمع کرانے کی شرط پر بری کر دیاتھا۔تعزیرات ہند کی دفعہ 323 کے تحت قصوروار کو زیادہ سے زیادہ ایک سال قید بامشقت یا مالی جرمانہ یا دونوں کی سزا دینے کا نظم ہے۔متوفی گرنام سنگھ کے رشتہ داروں کی جانب سے سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ عرضی میں سدھو کی سزا کو بڑھانے کی مانگ کی گئی تھی۔ اس نظرثانی درخواست میں سپریم کورٹ کو صرف اس سوال پر غور کرنا تھا کہ کیا سدھو پر صرف ایک ہزار روپے کی سزا کافی ہے یا انہیں آئی پی سی کی دفعہ 323 کے تحت کسی اور مدت کی سزا دی جانی چاہئے۔درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد بنچ نے سدھو کی سزا میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا اور انہیں ایک سال کی قید کی سزا سنائی۔سپریم کورٹ نے اس حقیقت کا نوٹس لیا کہ ایک بین الاقوامی کھلاڑی سدھو نے اپنی عمر سے دوگنا زیادہ عمر کے ایک شخص کو سڑک پر چلنے پر مکے سے مارا۔ سدھو کی گرنام سنگھ سے پہلے کوئی دشمنی نہیں تھی۔پنجاب کے پٹیالہ کے رہنے والے گرنام سنگھ کے اہل خانہ نے اپنی درخواست میں بار بار سزا میں اضافے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ سدھو کی صرف 1000 روپے کی مالی سزا پر رہائی ناکافی ہے۔سپریم کورٹ نے 25 مارچ کو سزا پر نظر ثانی کی درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔یہ مقدمہ ایک 65 سالہ گرنام سنگھ کی موت سے متعلق ہے جب سدھو اور دیگر نے اسے 1988 میں سڑک پر ہونے والی لڑائی میں مکے مارے تھے۔ متاثرہ فریق کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ گرنام سنگھ کو سدھو نے زبردستی مکے سے مارا تھا۔ سدھو پر متوفی کے رشتہ داروں کی طرف سے عدالتی لڑائی میں مختلف سطحوں پر غیر اراردتاً قتل کا الزام لگایا گیا لیکن یہ ثابت نہیں ہوا۔