روس، ترکیہ اور ایران کے صدور نے تہران میں ملاقات کے بعد سہ فریقی بیان میں شام میں ‘دہشت گردوں کے خاتمے’ کے لیے اپنا تعاون جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیان میں کہا گیا کہ تینوں ممالک نے دہشت گرد افراد، گروہوں اور اداروں کو ختم کرنے کے لیے تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے تیل کی اس آمدنی پر غیر قانونی قبضے اور منتقلی کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا جس کا تعلق شام سے ہونا چاہیے۔علاوہ ازیں انہوں نے شام میں علیحدگی پسند ایجنڈے کے خلاف کھڑے ہونے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔یہ سہ فریقی بیان ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کی جانب سے اپنے روسی اور ایرانی ہم منصبوں سے شام میں دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں کی حمایت کی درخواست کے بعد جاری کیا گیا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رجب طیب ایردوان نے حال ہی میں شام کے تیل سے مالا مال شمال مشرق میں نیم خودمختار کرد انتظامیہ کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔رکیہ نے 2016 سے شام پر حملوں کا آغاز کیا جس میں کرد جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ شدت پسند اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) کے افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا، اس نے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف شامی باغیوں کی بھی حمایت کی۔ایران اور روس بھی شام کے تنازع میں شریک رہے ہیں لیکن بشارالاسد کی مخالفت کے بجائے حمایت کرتے ہیں، طیب اردوان نے سربراہی اجلاس میں کہا کہ یہ واضح طور پر سمجھنا چاہیے کہ ہمارے خطے کے مستقبل میں علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم آنے والے وقت میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
تاہم ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے سربراہی اجلاس سے قبل ترک رہنما سے کہا کہ شام میں کردوں کے خلاف ترکی کی نئی کارروائی خطے کے لیے نقصان دہ ہو گی۔انہوں نے اس مسئلے کو انقرہ، دمشق، ماسکو اور تہران کے درمیان مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری کیا جانے والا یہ سہ فریقی بیان ترکی کی جارحیت پر ایران کے مؤقف میں کسی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے یا نہیں۔قبل ازیں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے رواں برس 24 فروری کو یوکرین کے خلاف شروع ہونے والی جنگ کے بعد پہلے غیرملکی دورے میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اسرائیل اور سعودی عرب کے دورے کے ایک روز بعد ولادیمیر پیوٹن نے ایران کا دورہ کرتے ہوئے مغربی پابندیوں کے باوجود ایران، چین اور بھارت کے ساتھ قریبی اسٹریٹجک تعلقات استوار کرنے کے ماسکو کے منصوبوں کے بارے میں مغرب کو ایک مضبوط پیغام دیا ہے۔آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ پیوٹن کی ملاقات کی فوٹیج میں دونوں رہنماؤں کو چند میٹر کے فاصلے پر ایک سفید کمرے میں اکٹھے بیٹھے دیکھا گیا۔پس منظر میں صرف ایک ایرانی جھنڈا اور انقلابی رہنما آیت اللہ خمینی کی تصویر دیکھی گئی۔پیوٹن کے خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا کہ ’خامنہ ای کے ساتھ رابطہ بہت اہم ہے۔انہوں نے بتایا کہ ‘دونوں رہنماؤں کے درمیان دوطرفہ اور بین الاقوامی ایجنڈے کے اہم ترین امور پر گفتگو ہوئی، بیشترمعاملات پر ہماری پوزیشن قریب تر یا یکساں ہے’۔ایران کے لیے بھی یہ دورہ بروقت ہے جو اپنے جوہری پروگرام اور دیگر کئی مسائل کے سبب امریکا کے ساتھ تنازع اور بدترین مغربی اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہے۔