دریائے سندھ میں کشتی ڈوبنے کے المناک سانحے میں جاں بحق 26 افراد کو سندھ میں مچھکے کے قریب آبائی گاؤں حسین بخش سولنگی میں سپرد خاک کر دیا گیا جب کہ رحیم یار خان کے قریب پیش آئے حادثے کے ایک روز بعد بھی ریسکیو آپریشن کے باوجود 27 افراد لاپتا ہیں۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نماز جنازہ میں قبیلے کے سربراہ سردار عباس خان سولنگی نے شرکت کی ، انہوں نے ڈان سے گفتگو کےدوران تصدیق کی کہ کم از کم 26 افراد کی نماز جنازہ آبائی قبرستان میں ادا کی گئی ہے، جن افراد کی نماز جنازہ ادا کی گئی ان میں 2 بچے اور ایک خاتون بھی شامل تھی۔سردار عباس خان سولنگی نے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں سے معاوضے کا مطالبہ کیا، انہوں نے دونوں صوبائی حکومتوں کو علاقے میں پلوں کی تعمیر میں ناکامی کا ذمہ دار قراردیا جس کی وجہ سے لوگ پار کرنے کے لیے لکڑی کی خستہ حال کشتیوں کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
کشتی ڈوبنے کے واقعے کے ایک دن گزر جانے کے باوجود درجنوں افراد لاپتا ہیں جب کہ لواحقین لاشوں کو نکالنے کے لیے جاری ریسکیو آپریشن کی کامیابی کی امید کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے منتظر رہے۔گزشتہ روز ریسکیو اہلکاروں کو تلاش میں زیادہ کامیابی نہیں ملی جب کہ رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر کے مطابق منگلا سے پاک فوج کے 18 غوطہ خوروں کی ایک ٹیم بھی امدادی کارروائی میں حصہ لینے کے لیے رحیم یار خان پہنچ گئی ہے۔یہ حادثہ پیر کے روز اس وقت پیش آیا تھا جب شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد لوگ 2 کشتیوں میں سوار ہو کر اپنے گاؤں ماچکے واپس آرہی تھے۔دولہا کے ایک کزن نے ڈان کو بتایا کہ ایک کشتی اوور لوڈ ہو گئی تھی جو ایک تختہ ٹوٹنے کے بعد الٹ گئی۔ محمد حسین نے بتایا کہ ڈوبنے والوں میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد بھی شامل تھے جب کہ ڈوبنے والے تمام لوگوں کا تعلق سولنگی قبیلے سے تھا۔
دولہے کے چچا غلام حسین نے بتایا کہ ان کے تمام رشتہ دار شادی کی تقریب میں شرکت کے سلسلے میں گئے تھےاور وہ عام طور پر دریائے سندھ کو عبور کرنے کے لیے کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ حادثہ بہت اچانک تھا جس کی وجہ سے کشتی میں سوار مرد خواتین اور بچوں کو نہیں بچا سکے۔الٹنے والی کشتی میں 40 سے 45 مسافروں کی گنجائش تھی جب کہ حادثے کے وقت اس میں 95 مسافر سوار تھے، ان میں سے 45 افراد کو ابتدائی کوششوں میں بچا لیا گیا تھا، ریسکیو اہلکاروں نے 22 افراد کی لاشیں نکال لی ہیں جب کہ 27 افراد آخری خبریں آنے تک لاپتا تھے۔ریسکیو 1122 کے ترجمان عدنان شبیر نے بتایا کہ علاقے میں حالیہ بارشوں کے باعث جائے حادثہ تک پہنچنے کا راستہ کافی خراب تھا اور گاڑیوں کو وہاں تک لے جانے کے لیے ٹریکٹر کا استعمال کرنا پڑا جس کے باعث امدادی کارروائیوں میں تاخیر ہوئی۔