عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کی جلد فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد کی درخواست کے لیے پاک فوج کے سربراہ نے واشنگٹن سے رابطہ کیا ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نکی ایشیا نے لکھا کہ ‘کم ہوتے ہوئے غیر ملکی ذخائر نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے اسلام آباد میں افراتفری کو جنم دیا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی امریکی نائب وزیر خارجہ کو فون کال ڈیفالٹ سے بچنے کی پاکستان کی کوششوں کا حصہ تھی۔اس حوالے سے دفتر خارجہ میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ کہ آرمی چیف اور امریکی نائب وزیر خارجہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات کے بارے میں پاک فوج کا شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) ہی بتا سکتا ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ معیشت پر بات ہوئی یا نہیں۔
جب ڈان نے امریکی محکمہ خارجہ سے تصدیق کرنا چاہی تو ان کے ایک ترجمان نے کہا کہ ‘امریکی حکام پاکستانی حکام سے کئی معاملات پر باقاعدگی سے بات کرتے ہیں لیکن معیاری طریقہ کار کے مطابق ہم نجی سفارتی گفتگو کی تفصیلات پر تبصرہ نہیں کرتے۔نکی ایشیا کی رپورٹ میں کہا گیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے وائٹ ہاؤس اور محکمہ خزانہ سے اپیل کی کہ وہ آئی ایم ایف پر فوری طور پر تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی فراہمی کے لیے زور دیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ موجودہ پاکستانی حکومت کے پاس اسلام آباد سے آگے بہتر ساکھ یا سیاسی سرمایہ نہیں ہے اور اسے معزول حریف عمران خان کے مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔
اسی لیے مبصرین کہتے ہیں کہ ‘اقتدار 61 سالہ انفنٹری افسر جنرل قمر جاوید کے پاس ہے’ حالانکہ وہ تین سال کی توسیع کے بعد نومبر میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پہلے ہی قرض کے اجرا کے لیے ‘اسٹاف سطح کی منظوری’ دی جاچکی ہے لیکن آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے حتمی منظوری کے بعد ہی اس پر کارروائی ہوگی۔رپورٹ میں آئی ایم ایف کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا گیا کہ آئی ایم ایف اگلے تین ہفتوں کے لیے تعطیلات پر جا رہا ہے اور اس کا بورڈ اگست کے آخر تک اجلاس نہیں کرے گا لہٰذا پاکستان کے لیے قرض کی منظوری کے اعلان کے لیے کوئی ٹھوس تاریخ طے نہیں کی گئی۔دوسری جانب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ وہ پاکستان میں اسٹیک ہولڈرز کے ایک سلسلے کے ساتھ مصروف عمل ہے لیکن وہ ایک سیاسی جماعت پر دوسری سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتا۔
ترجمان نیڈ پرائس نے یہ بات واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ میں کہی جہاں انہوں نے دنیا بھر میں جمہوری اصولوں کی حمایت کی امریکی پالیسی پر بھی زور دیا۔انہوں نے پی ٹی آئی کے نمائندے اور محمکہ خارجہ کے اہم عہدیدار ڈولڈ لو کے درمیان مبینہ ملاقات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہم پاکستان میں متعدد اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مصروف عمل ہیں، ان لوگوں کے ساتھ جو فی الحال حکومت میں ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھی لیکن میں ایسی کسی بھی میٹنگ سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ڈونلڈ لو امریکی محکمہ خارجہ میں بیورو برائے جنوبی اور وسط ایشیائی امور کے سربراہ ہیں جن پر پی ٹی آئی نے اپنی حکومت گرانے کی مبینہ سازش کا الزام عائد کیا تھا۔ترجمان محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر ایسی کوئی میٹنگ تھی تو میں اس بارے میں بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔نیڈ پرائس نے بھی اس معاملے پر پی ٹی آئی کے مؤقف پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے اس پر پہلے جو کہا ہے وہ سچ ہے۔