ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپریل میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پہلی کثیرالجہتی تقریب ہے جہاں وزیر خارجہ بننے کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک ساتھ شرکت کی۔ایک موقع پر دونوں وزرائے خارجہ ازبکستان کے صدر شوکت مرزیوئیف کی مشترکہ ملاقات کا انتظار کر رہے تھے، اس غیر رسمی ماحول میں بھی دونوں وزرائے خارجہ ایک دوسرے سے دور بیٹھ گئے۔جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات طویل عرصے سے تلخ رہے ہیں، بی جے پی حکومت کی جانب سے 2019 میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کر دیے۔خودمختار حیثیت ختم کیے جانے کے بعد کشمیر میں پیش آنے والے واقعات اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہندو بالادستی کے اقدامات اب تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کہ بحالی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، پاکستان کا مؤقف یہ رہا ہے کہ وہ تعلقات معمول پر آنے کا خواہاں ہے لیکن یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ایک حکومتی تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی ضرورت پر زور دیا تھا۔انہوں نے اس وقت دلیل دی تھی کہ جنگ اور تنازعات کی ایک طویل تاریخ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اقدامات اور اس کے مسلم مخالف ایجنڈے کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات سے احتراز برتنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔لیکن اس کے فوراً بعد دفتر خارجہ نے وضاحت جاری کی کہ بھارت کے بارے میں پاکستان کی اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس پر قومی اتفاق رائے ہے۔تاہم بلاول بھٹو زرداری اور ایس جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے قوانین اور چارٹر کی پاسداری کرتے ہوئے دو طرفہ تنازعات کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی ایک دوسرے پر الزامات لگائے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر میں ایک شق موجود ہے جو رکن ممالک کو تنظیم کے اجلاسوں میں دو طرفہ تنازعات کو موضوع سے روکتی ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ نے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس میں اپنی تقریر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے لیے باعث تشویش اہم علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر پاکستان کے نقطہ نظر کو اجاگر کیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مشترکہ خوشحالی شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک اور عالمی سطح پر امن، استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کی ترقی و خوشحالی کا انحصار ای کامرس، کاروبار کو ڈیجیٹل کرنے، جدت اور ترسیل کے بین الاقوامی سلسلے کے تحفظ جیسے اہم شعبوں پر ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ازبکستان اور افغانستان کے ساتھ ٹرانز افغان ریل منصوبے پر تیزی سے کام کر رہا ہے، یہ منصوبہ وسطی ایشیائی ممالک کو پاکستان کی بندرگاہوں تک ایک اہم رسائی فراہم کر سکتا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کے درمیان ٹرانسپورٹ سسٹم کا ایک اہم جزو بن جائے گا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پہلے ہی علاقائی رابطے اور خوشحالی کے فروغ میں مدد دینے کیلئے ایک کلیدی پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہی ہے۔وزیر خارجہ نے افغانستان میں انسانی بحران کے بارے میں بھی بات کی اور رکن ممالک کو جنگ سے تباہ حال ملک کی مدد کے لیے ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا۔دریں اثنا بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے خطے کو درپیش چیلنجز اور شنگھائی تعاون تنظیم کی توسیع پر بات کی۔دفتر خارجہ کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ نے تنظیم کے قیام کے 20 سال بعد اسے درپیش اہم مسائل پر غور کیا جن میں اس کی رکنیت میں توسیع، ایس سی او سیکرٹریٹ کے میکانزم میں بہتری اور عالمی اقتصادی اور سیاسی پیش رفت اور رکن ممالک کے لیے چیلنجز شامل تھے۔وزرائے خارجہ نے سماجی و اقتصادی تعاون کے مختلف شعبوں سے متعلق تجاویز کی توثیق کرنے والے 16 فیصلوں پر دستخط کیے اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشن کو مضبوط بنانے سے متعلق مشترکہ مؤقف اپنایا۔کانفرنس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے چین، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ سے بھی ملاقات کی۔دفتر خارجہ نے کہا کہ ان دو طرفہ ملاقاتوں میں وزیر خارجہ نے مشترکہ دلچسپی کے امور کے ساتھ ساتھ دو طرفہ تعاون اور ان ممالک کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔