زمین اور اسکے شکم میں پنہاں اشیإ اور زمین کی جبین پر چلنے والے، رینگنے والے، مخلوق ۔ آسمان اور اسکے رخسار پر جگمگانے والے ،ٹمٹمانے والے تارے، شمشو قمر پھر زمین اور آسماں کے درمیاں ہوا میں رہنے والی ہماری نظروں سے اوجھل خداوند کی مخلوق۔ مطلب کہ انسان، فرشتے، جنات، جانور، پرندے، چرندے، حیوان، چلنے والے، دوڈنے والے، رینگنے والے، تیرنے والے، پھاڑنے والے، ڈھسنے والے اور اڑنے والے بے زبان جانور ۔یہ حیسن وادیوں کے رنگا رنگا مناظر اور ناز و نکھروں کے ساتھ بہہ نے والا سمندر ۔یہ رنگ بہ رنگ پھولوں کی نکہت اور دلکشی، اور چھوٹے بڑے کہساروں کی بلندی ، یہ شمشو قمر کی کرنوں کے جلوے اور لیل و نہار کا بدلنا غرض کہ کوٸی چیز نکمی نہیں خدا کے کار خانے میں۔ خالقِ کل جہان نے اپنی ہر تخلیق کردہ شے کو ایک مدلل اور مخصوص مقصد کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ ہر جان دار اور بے جان کو اپنا اپنا ایک الگ تھلگ نظامِ حیات ہے۔ اسی نقشے کے حدودوں پر قاٸم رہنے سے اسکی پہچان کے دامن پر کوٸی داغِ نہیں لگتا ہے۔ وہ ہر وقت فلاح و کامرانی کے مشکِ امبر سے معطر ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اس تمام خلقت میں جسے اشرف کے شرف سے سرفراز کردیا گیا ہے۔ جسے کرہ عرض پر حق تعالی نے اپنا خلیفہ بنا دیا۔ جن کی بندگی پر پھر سجدوں میں رکوع میں قیام میں تلاوت و ذکر میں محو فرشتوں کو بھی رشک آیا ۔وہ بخت ذاد، وہ خوش نصیب ، جو کھنکھناتی مٹی سے اور امرِ خدا سے انسان کی صورت میں وجود میں آیا۔ تمام مخلوقوں کا سردار یہی انسان ہے۔ جس کی جبین پر نشانِ اشرف المخلوقات کا داغ آفتابِ پرتو کی طرح چمک رہا ہے۔ یہاں غورِ طلب خیال ہے کہ جس کو تمام باقی مخلوقات پر اتنی عروج کی فوقیت حاصل ہے۔ تو اس انسان کا ضابطہِ حیات،مقصدِ زندگی بھی کتنا ہی اہم ہوگا۔ ضرور کوٸی نا کوٸی ایسے فراٸض اسی کے بس سے، ہمت و لگن، جوش و ولولہ سے انجام کی دہلیز پر پہنچتے ہوں گیں۔ جو کسی اور مخلوق کی بس کی بات نہیں ہوگی۔ جس کے کرنے سے وہ قاصر یا ناتواں ہوں گیں۔ اسی لیے تو پرودگارِ عالم نے انسان کو ہی اپنا خلیفہ بنایا۔ورنہ اور بھی تھے خطا سے بےنیاز فرشتے، قوی و ششدر جنات۔ لیکن قرآنِ کریم میں واضح ہے کہ انسان کو ہی خلیفہِ عرض کا شرف بخشا گیا ہے۔ تو صاف ظاہر ہوا کہ انسان کا مقصد کیا ہے۔کیوں کہ جب لفظِ خلیف پر نظر پڑتی ہے۔ تو ایک ذمہ داری، احساس ، زندہ ضمیر، ہم درد ، غمخوار، بِر و تقویٰ، زھد و رُشد، تعلیم و تربیت ، اخلاق و اداب جیسے انوارات منکشف ہوجاتے ہیں۔ بگڑے ہوۓ حالاتوں کی تصحیح کرنا ، الجھے ہوۓ معاملاتوں کو سُلجھانا، فتن و فساد کی خندق کو بھر دینا، حسد اور نفرت کی دیواروں کو منہدم کر کے محبت کی راہ ہموار کردینا ۔غرض کہ ایک اچھے اور راحت بخش معاشرہ انسان ہی کو وجود میں لاسکتا ہے۔ اسی لیے تو شاید شاعرِ مشرق فرماتے ہے کہ۔۔۔۔۔
میری ندگی کا مقصد تیری دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی
کہ سماج میں جتنی بھی بد فعلی پھیل چکی ہیں۔ جیسے بد اخلاقی، بد کرداری، بے راہ روی، کزب و فریب ، فسق و فجور، سود و زیاں، رسم و بدعت، حسد و کینہ، بغض و نفرت، فتن و فساد، قتل و غارت، ڈرگس و ڈکیٹی، زنکاری و شراب نوشی ایسے ایسے نازیبا اعمالوں کا سر قلم ا امن و سکون ، ہمدردی و شچاٸی ، نماز و روزہ، تہلیل و تحمید، امامت و شجاعت، صداقت و معرفت کی تلوار سے کردینا ہے۔ اور ایک پاکیزہ معاشرے کی بنیاد رکھنی ہے۔ یہی ایک عطرِ اسلام سے معطر ہونے والے مسلمان کا مقصد ہے۔ قرنِ اولیٰ یعنی دورِ صحابہؓ اور دورِ تابع و تبا تابع کے مومن اوصاف انسانوں نے اپنی زندگانیوں کا مقصد انجام دے کر ایک اچھے معاشرے کی مثال جبینِ زمین پر اور تاریخی اوراقوں پر راسخ کیا ہے۔ اور آج بڑے فخر و ناز سے انکی معاشرت پر چلنے اور اپنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ تاکہ ہمارا سفینہ بھی پار لگ جاۓ۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے۔ کہ یہاں یعنی آجکل کا نامی مسلمان فقط کچھ عبادات پر مقید ہوا ہے۔ بلکہ اب تو حالت اسے بھی ابتر ہوچکی ہے۔ کہ بنیادی امور بھی بھول بھیٹا ہے۔ نہ نماز نا روزہ نا زکوۃ پھر حج و عمرہ کی تو بات ہی نہیں بنتی۔ بس صبح پھوٹتے ہی کمر کس کے مال و زر کمانا پھر رات بھر دوستوں احبابوں کے ساتھ کھانا پینا گھپ شپ لگانا نا احکامِ الہی کی فکر نا آخری نبیﷺ کی ذکر اور نا ہی اولادوں کی تعلیم و تربیت کیلے وقت رہا۔ اور پھر بازاروں میں یہی انسان بگڑے ہوۓ معاشرے کی حالت پر تبصرہ کرتا ہے۔ حالانکہ اسے یہ خبر نہیں کہ میرا کیا کردار ہے۔ سماج میں تاکہ دین کی سرفرازی ہوجاۓ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب لوگ نے ایک دوسرے پر انگلی اٹھا اٹھا کر اپنا معاشرہ تباہ و برباد کیا ہے۔ اور دین کی سرفرازی اپنی ہی جگہ رہ گٸی۔ تواریخ کے کتب میں درجنوں واقعات ہیں کہ ایک نحیف انسان نے اللہ کی زمین پر اللہ کے حکم کیسے قاٸم کیے ہے۔ ایک مشہور واقعہ مجھے یہاں یاد آرہا ہے۔ طاٸف کے سترہ سالہ نوجوان ایمان کا جذب و شوق دل میں ہمت و ولولہ کا خون رگوں میں نگاہوں میں حق کی بصارت اور بازوں میں شجاعت رکھنے والا محمد بن قاسمؒ اپنے گھر اور وطن کی آغوشِ محبت سے نکل کر سفرِ انقلاب کا مسافر دن رات دین کی سرفرازی کے خیالات کا توشہ لے کر چل رہا ہے۔ اور آخر کر جس ملک اور جس جس علاقے میں اس نے اپنے قدم رکھے وہاں دینِ اسلام بلند کیا۔ برِ صغیر پر اسکا بہت بڑا اثر پڑا ہے۔ آج کے حساب سے سترہ سالہ نوجوان کو صحیح ڈھنگ سے خود کو سنبھلا نہیں جاتا ہے۔تو محلے کو کیا خاک سنھال کتا ہے۔ یہ سب حال دیکھ کر افسردگی تو ہوتی ہے دل رنجیدہ بھی ہوتا ہے لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس بھی نہیں ہوں۔ کہ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ لہٰزا اپنا مقصد جاننا ہے۔اپنی اپنی ذمہ داری کو اچھے طریقے سے انجام دینا ہے۔تاکہ دینِ الہی کی آبِ یاری اور سرفرازی ہوجاے۔ وقت کو غیر ضروری کاموں میں ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے مقصد پر کام کیا جاے۔ اسی میں ہماری دونوں جہان کی کامیابی اور فلاحی پنہاں ہے
از قلم :- طارق اعظم کشمیری
ساکنہ:- ہردوشورہ ٹنگمرگ
رابطہ:- 6006362135