لوگوں کی صحت سے متعلق جائزہ لیا جائے تو جموں کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں سے ایسی بیماریاں اُبھر کر سامنے آچکی ہیں جن کا براہ راست تعلق انسان کی غذا سے ہے۔ غذا میں ایسے چیزوں کا استعمال جو انسانی صحت کیلئے مضر رساں ہیں، کی وجہ سے لوگوں کے اندر کئی بیماریاں آئے روز جنم لے رہی ہیں۔ اگرچہ اس مسئلہ پر یہاں کے طبی ماہرین نے بیسیوں مرتبہ عوام سے پرزور تاکید کی کہ وہ اپنے کھانے پینے کی عادتوں میں کسی لیت و لعل کے بغیر تبدیلی لائیں تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ زمینی سطح پر ابھی تک کوئی ٹھوس بدلائو دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ حالیہ دنوں جموں کشمیر کے طبی ماہرین نے ایک مرتبہ پھر کشمیری عوام کو خبر دار کرتے ہوئے ان سے اپیل کی ہے کہ وہ کھانے پینے کی عادتوں کو بدل ڈالیں اور چکنائی اور زیادہ مصالحہ جات کے علاوہ نمک کی زیادتی سے پرہیز کریں۔ان کے علاوہ دیگر ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگر لوگ تندرست رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنا لایف سٹایل مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوگا اور خاص طور پر نمک اور چینی کے علاوہ چکنائی یعنی تیل ،گھی ،مکھن وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہئے۔ان ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ جو بھی چیز اعتدال میں لی جائے گی اگرچہ وہ نقصان دہ نہیں ہوسکتی ہے لیکن انسان کو خود ہی اپنے لئے اپنا ڈاکٹر بننا چاہئے اور متذکرہ بالا اشیاء کو اعتدال سے بھی کم مقدار میں استعمال کرنے سے ہر بڑی بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور فاسٹ فوڈ کی وجہ سے بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔اس کے ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر کے عالمی دن پر ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ تمباکو نوشی اور ماحولیاتی آلودگی تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی جڑے دوسری کھانے پینے کی بے ہنگم چیزوں سے بھی اس طرح کے کینسرز میں اضافہ ہوسکتاہے لیکن بنیادی طور پر منشیات کا بے تحاشہ استعمال اور ماحولیاتی آلودگی سے ہی اکثر بڑی اور مہلک بیماریاں پھیلتی ہیں۔ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ جتنا ایک ایکٹو سموکر تمباکو نوشی سے متاثر ہوتا ہے، اُتنا ہی ایک پیسو سموکر بھی اسی حد تک دوسرے شخص کی تمباکو نوشی سے متاثر ہوتا ہے۔ان ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ گھر میں باپ سگریٹ نوشی کرتا ہے سامنے اس کی بیوی بچے ہوتے ہیں اور وہ سگریٹ نہیں پیتے ہیں لیکن ایک شخص کی سگریٹ نوشی سے جتنے اس کے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں اتنے ہی اس کے بیوی بچے بھی دھوئیں سے متاثر ہوتے ہیں۔حالانکہ وہ سگریٹ نہیں پیتے ہیں بلکہ سگریٹ کے دھوئیں سے ان کے جسم کے اندرونی اعضا متاثر ہوتے ہیں اور وہ بھی بڑی اور لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔اب گاڑیوں میں یہاں لوگ سگریٹ نوشی سے پرہیز تو کرتے ہی ہیں لیکن اس پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں کشمیر صوبے میں پھیپھڑوں کے کینسر میں کافی تیزی آئی ہے۔ تازہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سخت علیل دس فی صد مریضوں میں اس مہلک بیماری کا اثر پایا جاتا ہے۔بہرحال یہ کوئی مثردہ جانفزا نہیں بلکہ اس سے پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں اسلئے جس کسی صاحب کو اس حوالے سے معمولی سا بھی شبہ ہوجائے اسے فوری طور ڈاکٹری مشورہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اگر واقعی وہ اس طرح کی کسی بیماری میں مبتلا ہوگا تو فوری علاج سے اسے آرام مل سکے گا اور بیمار شفایاب ہوسکتاہے۔زندگی گذارنے کے موجودہ طریق کار اور کھانے پینے کی عادتوں کو تبدیل کرنے سے ہم اور ہمارے گھروالے پاس پڑوسی بڑی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں اور عمدہ طریقے پر بغیر بیماریوں کے زندگی کے دن گذار سکتے ہیں۔