از قلم : مجاہد عالم ندوی
متعلم : ( ایم اے اردو) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
غالب 27 ، دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے ، ان کا نام مرزا اسد اللّٰہ خاں تھا ، ابتدا میں اپنا تخلص اسد رکھا مگر بعد میں غالب استعمال کرنے لگے ، ان کے والد کا نام مرزا عبداللّٰہ بیگ خاں تھا ، ان کے والد ریاست الور کی فوج میں ملازم تھے ، ایک مہم کے دوران انہیں گولی لگی اور ان کا انتقال ہو گیا ، اس لیے ان کے چچا مرزا نصر اللّٰہ بیگ نے غالب کی پرورش کی ، مگر غالب ابھی آٹھ سال کی عمر کو پہونچے تھے کہ ان کے چچا کا انتقال ہو گیا ، 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں غالب کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی ، 1812ء میں آگرہ چھوڑ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی ، غالب کی کوئی اولاد نہ تھی ، سات بچے پیدا ہوئے مگر کوئی زندہ نہ رہا ۔
غالب کی پوری زندگی معاشی تنگدستی میں گزری ، ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کے کلام پر اصلاح دینے لگے ، بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ ، دبیر الملک ، نظام جنگ کا خطاب عطا کر کے پچاس روپے ماہوار وظیفہ مقرر کیا اور خاندان تیموریہ کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا ، ذوق کے بعد بہادر شاہ ظفر نے غالب کو اپنا استاد تسلیم کیا ، 1857ء کے بعد جب غالب کی سرکاری پنشن بند ہو گئی تو ان کی زندگی نہایت ہی کسمپرسی میں گزرنے لگی ، آخری عمر میں بیماری اور کمزوری نے انہیں گھیر لیا ، مرنے سے ایک روز قبل دماغ پر فالج کا اثر ہوا اور وہ 15 فروری 1869ء کو وفات پا گئے ، دہلی کی بستی حضرت نظام الدین میں انہیں دفنایا گیا ۔
غالب نے اُردو شاعری کو نئی بلندیوں تک پہونچایا ، نئے نئے موضوعات شامل کیے ، فلسفیانہ خیالات کو جگہ دی ، غالب زندگی کا گہرا شعور رکھتے تھے ، غالب نے زندگی کے حقائق اور نفسیات کو بڑی سادگی سے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے ، وہ انسانی زندگی کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں اور پھر ان کی گتھیوں کو سلجھا کر انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں ، غالب نے اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی مگر ان کو اُردو شاعری کے سبب شہرت حاصل ہوئی ، غالب تقلید کے قائل نہیں تھے وہ اپنا راستہ خود بناتے تھے ، انہوں نے اُردو غزل میں نئے نئے تجربے کر کے اس میں وسعت بخشی ۔
غالب کی شاعری کئی حیثیت سے انفرادیت رکھتی ہے ، طنز و ظرافت رمز و ایمائیت ، نکتہ آفرینی ، نادر تشبیہات و استعارات اور مسائل ان کی شاعری کی امتیازی خصوصیات ہیں ، غالب کی غزل حسن خیال ، حسن معنی اور حسن بیان کا پرتو ہے ، ان کی شاعری میں قول محال کا استعمال ملتا ہے ، یعنی ایسی بات جو بظاہر درست مفہوم نہ لگے مگر غور کریں تو درست ہو ، ایک ہی شعر کے کئی کئی معنی نکلتے ہیں ، لطافت و نکتہ آفرینی بھی پائی جاتی ہے ، خوبصورت تشبیہات و استعارات کا استعمال ملتا ہے ، انسان دوستی بھی ان کی شاعری کا موضوع ہے ، ذیل میں چند اشعار پیش ہیں ۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب شخصی طور پر ایک اچھے انسان تھے اور شاعر کی حیثیت سے بھی ان کا مرتبہ بہت بلند تھا ، غالب اخلاق و عادات کے لحاظ سے بے حد بذلہ سنج ، ذہین ، حاضر جواب ، با مروت ، خوش مزاج اور کشادہ ذہن شخص تھے ، وہ انتہائی وسیع المشرب اور مذہبی معاملات میں خاصے آزاد خیال تھے ، ہندو ، مسلمان ، انگریز سبھی ان کے حلقۂ ارباب میں شامل رہتے تھے ، حتی المقدور دوسروں کی مدد کرنا ان کا شعار تھا ، وہ بے انتہا درد مند انسان تھے اور محدود معاشی وسائل کے باوجود دوسروں کی مدد کرتے تھے ۔
انہوں نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں اعلٰی درجے کی شاعری کی ، غالب نے قصیدے بھی لکھے لیکن دراصل وہ قصیدے کے شاعر نہیں تھے بلکہ ان کا رنگ تو غزل میں کھلتا ہے ، غالب کو بات کرنے کا انداز آتا تھا ، وہ ایسی جدت اور ندرت سے کام لیتے تھے کہ بات کچھ کی کچھ ہو جاتی تھی ، غالب کے کلام کی خصوصیت شوخی اور ظرافت بھی ہے ، یہ ان کی شخصیت کا کمال تھا کہ اتنی آفتوں کو سہنے اور ایسے ہولناک مناظر کو دیکھنے کے باوجود انہوں نے شوخی اور ظریفانہ حس کو برقرار رکھا ۔
غالب نے اپنے خطوط کے ذریعہ اردو نثر کو بلندیوں تک پہنچایا ، الغرض غالب صرف اپنے دور کے ہی عظیم شاعر نہیں بلکہ ہر دور کے بڑے شاعر ہیں ، ان کی عظمت کے گن اردو شعر و ادب میں ہمیشہ گائے جاتے رہیں گے ۔