سال 2022بس چند کے بعد رخصت ہورہا ہے اور اپنے پیچھے کئی ایسی یادیں چھوڑ کر جارہا ہے جس میں پوری انسانیت کیلئے سبق پنہاں ہے۔ سال نو کی آمد کے پیش نظر دنیا بھر میں تقاریب کے انعقاد کی روایت برقرار ہے۔اندرون اور بیرون ملک 31دسمبر کی شام کو عوامی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یوں نئے سال کا جشن منایا جاتا ہے۔ ماضی کی طرح امسال بھی نئے سال کی تقریبات کا اہتمام شدومد کیساتھ جاری ہے ۔ جموں کشمیر میں بھی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقاریب کا اہتمام طے ہے۔ یہاں موجود سیاحتی مقامات پر بڑی مجالس کا اہتمام ہونے جارہا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ سیاحت تیاریوں میں پوری طرح سے جٹ چکا ہے۔ چند روز قبل محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر فضل الحسیب نے اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے بتایا کہ سال نو کی آمد کے موقعہ پر سیاحتی مقامات بشمول پہلگام اور گلمرگ میں بڑے پیمانے پر تقاریب کا اہتمام ہوگا۔ انہوں نے تقاریب کو ’’ونٹر کارنیول‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ نئے سال کی آمد کے موقعہ پرملکی و غیر ملکی سیاحوں کی ٹھیک ٹھاک تعداد متوقع ہے۔ادھر دوسری طرف ملک بھر میں فی الوقت کووڈ وائرس کی نئی لہر کا بگل شروع ہوچکا ہے جس کی وجہ سے عوامی حلقوں کے اندر سخت تشویش پائی جارہی ہے۔اطلاعات کے مطابق چین میں گزشتہ کئی ہفتوں سے کووڈ کی نئی لہر نے اُدھم مچانا شروع کردیا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں معاملات ریکارڈ ہورہے ہیں۔ چینی حکام نے صورتحال سے نمٹنے کیلئے ملک بھر میں قائم طبی اداروں کو الرٹ پر رکھا ہے اور تمام طبی ماہرین کووڈ کی تازہ لہر کو قلع قمع کرنے میں سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ چین کیساتھ ساتھ دیگر کئی بیرونی ممالک میں بھی کووڈ کی نئی لہر نے دستک دینی شروع کردی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنیوالے دنوں یا ہفتوں میں کووڈ وائرس دنیا بھر میں پھر سے ایک چیلنج بن کر سامنے اُبھر کرآئیگا۔ادھر جموں کشمیر میں گزشتہ کئی مہینوں سے کووڈ پوری طرح سے ختم ہوچکا تھا اور خال ہی کوئی معاملہ ریکارڈ ہوتا تھا تاہم گزشتہ دنوں کے دوران کووڈ کیسوں کی رجسٹریشن کا عمل پھر سے شروع ہوچکا ہے۔ صورتحال کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ سال نو کی آمد کے موقعہ پر منعقد ہونیوالی تقاریب میں عوام کا جم غفیر کہیں نئی لہر کیلئے نوالہ ثابت نہ ہوجائے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران بھی جموں کشمیر میں نئے سال کی آمد کے موقعہ پر جو تقاریب منعقد ہوئیں اُن کے فوراً بعد ہی ریاست میں کووڈ کیسوں میں اُچھال دیکھنے کو ملا۔ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے عوامی حلقوں کے اندر پائی جارہی تشویش حق بجانب ہے کیوں کہ جموں کشمیر کے حدود میں کووڈ وائرس نے جس طرح ماضی قریب میں تباہی مچائی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جموں کشمیر کی سرکار اور انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کی خاطراحتیاطی اقدامات قبل از وقت ہی اُٹھائیں ۔ کووڈ مخالف گائیڈلائنز کو ایسی تقاریب میں سختی کیساتھ نافذ العمل بنایا جانا چاہیے۔ جموں کشمیر کے ہوائی اڈوں پر ہی ایسا میکانزم عمل میں لانے کی ضرورت ہے کہ کوئی مسافر سکریننگ کے عمل سے چھوٹ نہ جائے اور جوبھی مسافر خدانخواستہ وائرس میں ملوث پایا جائے اُسے فی الفور آئیسولیشن میں رکھا جائے تا کہ عوام کی صحت و سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے۔