از قلم۔ طارق اعظم
گردِ آلود کپڑے اور پھٹی چپل پہن کر سورج کی حرارت میں مزدور باپ۔ خون پسینہ ایک کر کے ،اپنی لختِ جگر کے لیے اُس کے خواب، تمنا اور آرزو خریدنے میں مصروف رہتا تھا۔ ہر لحظہ میں اپنی بیٹی کو خوش رکھنا چاہتا تھا۔ جملہ دن دوگنی اور رات چوگنی کا مصداق بنا تھا۔ ناز اور لاڑوں کی آغوش میں پلی ہوی بیٹی کے برگِ نصرین کے مانند ہاتھ ، حنا کی آرائشوں کے منتظر تھے۔ ایک دن شام کو بابا اپنی پیاری بیٹی کے معصوم چہرے کو دیکھ دیکھ کر آب دیدہ ہو۔ باپ کے نحیف آنسوں دیکھ کر بیٹی جٹ سے بولی۔ بابا ۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے۔ تماری آنکھوں سے آنسوں کیوں بہہ رہیے ہیں۔ بابا بولا کچھ نہیں بیٹا۔ لیکن بیٹی کی ضد پر بابا کو اشک بہنے کے راز کی تشریح کرنی ہی پڑی۔ بابا کے منہ سے سن کر پیاری بیٹی بھی رونے لگی۔ اور بولی تم پریشان مت ہوجا بابا ۔ یہی نظامِ دنیا ہے اور اسی ریت پر سب چلتے ہیں۔ بس آپ مجھے اپنے دعاوں کا سہار جوان رکھنا۔ بابا کی لڑکھڑاتی زبان سے دعا نکلی۔ میری آنکھوں کا نور، دل کا سرور، اور تپش ذدہ بدن کی ٹھنڈی روح میرا مالک آپ کے نصیب اچھے کریں۔ ایک مہینہ کے بعد بیٹی ”حور“ کی شادی ہونے والی تھی۔ باپ نے ساری جمع پونجی الماری سے نکال کر بیٹی حور کے قدموں میں ڈال دیے۔کہا جاو اپنے لیے اچھے سے اچھے کپڑے اور ضرورت کی چیزیں لانا۔ لیکن بیٹی بھی عجیب فطرت کی تھی۔ اسے پتا تھا میرے باپ نے کس گرمی کی تپش میں یہ پیسے جمع کیں ہے۔ اسی کہا بابا نہیں میرے پاس ہے خوبصورت لباس بھی اور ضرورت کی چیزیں بھی ۔آپ یہ اپنے پاس رکھے ضرورت کے وقت کام آیں گیں۔ بہر حال دن اور رات کی مسلسل گردش نے تاریخِ نکاح حور اور اس کے بابا کی جھولی میں ڈال دیا۔ اعجاب و قبول کے فرض انجام لانے کے بعد مزدور باپ کی چہیتی بیٹی سسرال کی دہلیز پر اپنا پہلا نازک قدم رکھتی ہے۔ سب چھوٹے بڑے نی بہُو کے ارد گرد خوشی خوشی بیٹھنے لگے۔ کوی پھولوں کی مالا پہنا رہی ہے۔ تو کوی مٹھای وغیرہ بانٹ رہا ہے۔ غرض کہ سب خوشی سے پھولے نہیں سما رہیے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیٹی حور کو بھی سماج کے قالب میں اپنا آپ ڈالنا پڑا۔ اب حور کو سُسرال میں دس بارہ افراد کے لیے کھانا بھی پکانا پڑتا ہے۔اور کپڑے وغیرہ بھی رال کرنے پڑتے ہیں۔ گھر کا ہر کام بہو کے نازک دوشوں پر ڈالا گیا۔ اپنے میکے کی ملکہ سُسرال میں خادمہ بن گی۔ ساس ، سُسر ، دیور اور دیورانی کے حکم بجا لاتے لاتے بچاری بہُو کو ایک گھڑی کی فرصت نہیں مل رہی تھی کہ خود کو دیکھے سنوارے۔ لیکن اپنی پروا کے بجا وہ ہمیشہ گھر میں امن اور سکون کو قام رکھنے پر ثابتِ قدم رہتی تھی۔ ہر ایک کا ایک کان سے سنتی تھی اور دوسرے کان سے چھوڑ دیتی۔
چنانچہ ایک دن سورج مشرق کے کاسہ سے باہر نکل آیا تھا۔ سب گھر والے ناشتہ کر کے گپ شپ کر رہیے تھے۔ اتنے میں بہُو اندر آٸی تھوڑی دیر سے اٹھی تھی۔ سُسر کے بغل میں بیٹھی ساس ،بہو کی طرف غضب نظریں جما کر بولی۔ تمہيں ماں باپ نے تربيت نہیں کی ہے؟ جو صرف سوتی رہتی ہو۔ سب قہقہانے لگے۔ سُسر لہجے میں وزن رکھ کر بولا۔ یہ تھوڑی ہی ہماری بیٹی جیسی ہے۔ کجا میری بیٹی اور کجا یہ چھوٹے گھرانے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب طنز و طعنہ زنی بیکس بہو پر کرنے لگے۔ المیہ کی بات یہ ہے۔ کہ حور کا خاوند بیوی کے لے ذرہ برار دفاع نہیں کرسکھا۔ بے غیرتی کی بھی حد ہوتی ہے۔ کوی ہم درد ، غمخوار نہ بن سکھا اس تنہا بہُو کا۔ سُسرال والوں کی بے دریغ باتوں نے جیسے آسمان سے کنکروں کی بارش حوٗر کے نازک بدن پر پے در پے برسنے لگی۔۔ ہونٹ جیسے گولاب کے برگ تھرتھرانے لگیں۔ معصوم چشموں سے خاموش قلزم بہنے لگا۔ اور ایک گرج دار چیھک نکلی۔ بابا۔۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یہی کہتے کہتے بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ بیٹی حور کا کم سن جگر پاش پاش ہوا ۔کچھ باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ جو انسان کو بے موت مارتے ہے۔اور اسی حالت میں ظالم سسرال کی مظلوم وصال کر گی۔ کسی فردِ بشر کا ضمیر بیدار نہ ہوا۔ یہ انسانیت کے صحرا میں احساس کے سراب نکلے۔ جانور نما انسان۔۔۔۔۔ شاید یہی وہ ہے جنہیں بل ھم اضل کہا گیا ہے۔ بہو بھی کسی کی لختِ جگر ہوتی ہے۔ مگر افسوس ہمارے سسرالی معاشرے پر ، جو بہو کو لاتے ہے ڈولی میں پر بعد میں اس کے جزبات ، احساسات کو رکھتے ہیں جیل خانہ میں۔
از قلم۔ طارق اعظم
ساکنہ۔ ہر دوشورہ کنزر
رابطہ۔600636213