دورِحاضرمیں عالم مولوی حافظ کوغریب محتاج فقیرحاجت مند اوردنیاوی علم سے بلکل ہی ناآشنہ تصورکیاجارہاہے امامِ مسجدکوایک بندکمرے تک ہی محدودسمجھاجارہا ہے اوربات بات پریہ کہا جاتا ہے کہ مولوی صاحب کیاجانیں سیاست کیاجانیں تجارت کیاجانیں حکومت کیاجانیں ارباب واقتدارکیا جانیں اور مولوی دنیاوی کچھ کام کربھی لے توکہیں گے یہ تومولویوں کاکام نہیں مولوی نمازِپنچگانہ کے سِواکچھ نہیں جانتے دنیاوی ہرکام سے ناواقف ہیں اورعلماء پرطنزکستے ہوئے اپنی اولاد کی فراغ دلی سے تعریف کریں گے کہ میرابیٹا انجینئرہے یاڈاکٹرہے یاگورنمنٹ اسکول کاٹیچرہے یاوکیل ہے یاپولیس ہے یاکسی محلے کاکارپوریٹر ہے یایم ایل اے ہے میرا بیٹا سرکاری یا غیرِسرکاری اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے سال میں لاکھوں کمالے تا ہے دینی تعلیم سے آشنہ مولوی خودکاپیٹ نہیں پھرسکتاتوبیوی بچوں کاکیاپیٹ بھر ے گا اسی لئے ہم اپنے بچوں کوحافظ قاری عالم مفتی نہیں بلکہ دنیاوی تعلیم یافتہ بناتے ہیں حافظ عالم توغریب بچے بنتے ہیں اللہ اکبراب میں آپ کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ ایک عالم انسانی زندگی میں کیامقام رکھتاہے
مقام ِغوروفکر
مقام ِغوروفکر۔جب گھر میں بچے کی ولادت ہوتواسکے کان میں آذان دینے ایک عالم کی ضرورت ہے بچے کانام منتخب کرنے ایک عالم کی ضرورت ہے بسم اللہ خوانی کیلئے ایک عالم کی ضرورت ہے د ینی تعلیم جودنیااورآخرت کاسرمایہ ہے اسے سکھانے کے لئے ایک عالم کی ضرورت ہے۔ادناسے اعلیٰ انسان امراض قلب ہویاامراضِ جگرہویاامراضِ اعضا ء ہویامختلف امراض میں مبتلا ہوں جب دوائیوں میں کوئی اثر باقی نہ ہوتومسجدمیں دعاکروانے ایک عالم کی ضرورت ہے قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنے ایک عالم کی ضرورت ہے نماز روزہ حج وزکاۃ صدقہ وخیرات لین دین دینی ملی سماجی حلال وحرام طلاق خلع کے مسائل کے حل کے لئے ایک عالم ہی کی ضرورت ہے بندوں کے حقوق والدین کے حقوق
بچوں کے حقوق میاں بیوی کے حقوق خویش واقارب کے حقوق دادا دادی نانا نانی کے حقوق بھائی بہن کے حقوق عورتوں کے حقوق رشتہ داروں کے حقوق پڑوسیوں کے حقوق تجارت وکاروبارکے حقوق بلوغیت کے بعدطہارت وصفائی کاطریقہ کن جانوروں کاکھاناحلال ہے اورکن جانوروں کاکھانا حرام ہے مسجد مدرسہ گھر مکان ودکان بیت الخلاء وغیرہا میںداخل ہونے اورنکلنے کا طریقہ اوردعائیں اورروزمرہ پڑھی جانے والی دعائیں ذکرِخدا خوفِ خدا ذکرِرسول محبتِ رسول قرآن کاعلم حدیث کاعلم قرآن کے فضائل حدیث کے فضائل آیت منسوخ یاراسخ حدیث ضعیف یاصحیح کس آیت پراورکس حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے اورکس آیت پرکس حدیث پرعمل کرناضروری نہیں اسلامی تاریخ اللہ کے رسولوں نبیوں کی تاریخ پچھلی امتیوں کی تاریخ صحابہ کی تاریخ اسلامی جنگوں کی تاریخ سب علمائے کرام ہی اپنے واعظ ونصیحت میں بتاتے ہیں مولوی جب تک ہمارا نکاح ناپڑھائے تب تک ہمارانکاح منعقد ہی نہیں ہوتااوردنیاسے رخصت ہوتوبھی جنازے کی نماز ایک عالم ہی پڑھاتا ہے تجہیز وتکفین کے مسائل دسواں بیسواں چالیسواں سالانہ دعا فاتحہ بھی ایک عالم کرتاہے اورایصالِ ثواب کیلئے قرآن خوانی کی جائے تب بھی مدرسہ کے یامحلہ کے علماء ہی تشریف لاتے ہیں قبرستان کے آداب عذابِ قبر عذابِ حشر موت وحیات جیسے حساس مسائل قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء ہی امت کی رہنمائی کرتے ہیں سب سے اہم اورغورطلب امریہ ہے کہ نمازمیں ایک عالم کی اقتدامیں ڈاکٹر انجینئر دکاندار سرکاری یا غیرِ سرکاری اعلیٰ مسلم افسران بچوں سے لیکرعمررسیدہ سب ہوتے ہیں سب کے سب امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے کہیں گے کہ عالم کچھ نہیں جانتا۔عالم سب جانتا ہے اسی لئے توسب جاننے والے کی اقتدا کرتے ہیں۔ اس کا ماحصل یہ نکلاکہ کان میں اذان دینے سے نمازِجنازہ تک ایک عالم کی ضرورت ہے اورجو لکھے اورکہے کہ اْس دورکی کتابیں فتاویٰ عالمگیری فتاویٰ رضویہ وغیرہاکتابوں کی آج ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اِس دور کے مسائل الگ ہیں۔بھائی مفتیانِ کرام قرآن وحدیث ومعتبر
ومستند فقہی کتابوں کے پیشِ نظر ہی دورِ حاضر کے مسائل حل کرتے ہو ئے امت کی صحیح رہنمائی کرتے ہیں اْس دورکے مسائل اوراِس دور کے مختلف مسائل کاحل نماز روزہ حج وزکاۃوغیرہا ہزاروں مسائل کاحل کوئی انجینئر، ڈاکٹر ،فلاسفر،پی یم ،سی یم ،دنیاوی تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ایک مفتی عالم ہی قرآن وحدیث کی روشنی میں بتاتے ہیں پھربھی کہتے ہوکہ عالم کچھ نہیں جانتا، عالم کہتے ہی ہیں جاننے والے کو تواب تنقیدکرنابندکرو علمائے کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کرو تو اِسی میں دین ودنیا کی بھلائی پنھاں ہے
اگرسب عالم تاجربن جائیں تو؟
اسکول کالج میں پڑھنے والوں کا ایک ہدف ہوتاہے کہ ڈاکٹر بنیں گے یا انجینئر بنیں گے ہم پڑھ لکھ کر سیاست میں جائیں گے ہم کامیاب تاجربنیں گے ملک کا نام روشن کریں گے وغیرہاانہیں اس بات کا بھی بخوبی اندازہ رہتاہے کہ ہم فلاں ڈگری حاصل کریں گے تو اتناپیسہ ملے گا فُلاں سندحاصل کریں گے تو اپناذاتی کاروبارکریں گے یاخودکی آفس کھولیں گے دنیاوی تعلیم حاصل کرنے لاکھوں روپیہ صرف کرتے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں جتنا اسکول کالج کی فیس کی ادائیگی میں خرچ ہوگا پڑھنے کے بعد اس سے بہت بہت زیادہ کماسکتے ہیں
اب مدرسہ میں پڑھنے والے طلبہ کی زندگی پرغوروخوص کریں وہ طالب علم طلب علم دین کی خاطر اپنے ماں باپ بھائی بہن رشتہ داروں سے دور رہ کرجومدرسہ میں خوردونوش کا اہتمام رہتاہے اسی پر گذربسرکرکہ بس ایک ہی تمنادل میں لئے ہوئے پڑھتاہے کہ میں عالم مفتی حافظ قاری بن کر دین کی خدمت کروں گا خدمت دین کے فرائض انجام دوں گا جب وہ بھی وقت آتاہے اس کے سرپردستارفضیلت باندھی جاتی ہے پھرقوم وملت کاامام بنتاہے تب اسے پتاچلتاہے کہ معمولی سی رقم میں امام کاگذربسرکیسے چلتاہے اس حالت میں امام مدرس خطیب عالم امامت کرناترک کردے مدرس معمولی سی تنخواۃ دیکھ کرمنصب تدریس سے الگ ہوجائے کوئی حافظ تراویح پڑھانا بندکردے اور سب کے سب تجارت میں لگ جائیں توآپ خود بتائیں امامت کا منصب کون سنبھالے گا درس و تدریس میں قرآن و احادیث فقہ کی تعلیم کون دے گا ہمارے بچوں کو صحیح مع تجوید قرآن کون پڑھائے گاعلماء سب کے سب تاجربن جائیں تو دین ِ متین کی ترویج و اشاعت کی ذمہ داری کون اٹھائے گا ؟ ہرکوئی اس منصب کو پابندی کے ساتھ نبھانہیں سکتا سوائے علماء کے اس لئے اپنے اپنے مساجدکے اماموں مدرسوں دینی خدمت گاروں کی قدر کریں علماء نے ساری زندگی دین کی خدمت کے لئے لگادی ہے اب آپ کا بھی یہ فریضہ بنتاہے ان کے لئے ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے انکی رہائش کے لئے انکی زندگی گزارنے کے لئے سب مل کر بہترسے بہتر انتظامات کریں ان شاء اللہ ضرور بضرور اللہ تعالیٰ دین و دنیامیں آپ کو کامیابی عطاکرے گا حصول ِعلم ِدین وعلماء کامقام
قرآن وحدیث میں حصول علم دین کی بہت تاکید آئی ہے پارہ 22سورہ فاطرآیت نمبر 28 میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا۔ اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ابنِ ماجہ اور مشکٰوۃ شریف میں رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے ہر مسلمان مرد عورت پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے دوسری جگہ سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ہی کیوں نہ ہو یعنی حصول علم کے لیے بہت دور کیوں نہ جانا پڑے۔العلم نور۔علم نور ہے علم روشنی ہے اور جہل تاریکی علم تاریکی کو دور کرکہ راستہ دیکھاتا ہے مال کی حفاظت انسان کرتا ہے اورانسان کی حفاظت علم۔مال تقسیم سے گھٹا ہے اور علم بڑھتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے ہمارے لئے علم ہے اور جاہلوں کے لیے مال۔عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے ۔شیطان پر عالمِ دین عابد سے زیادہ سخت ہے۔ ترمذی شریف و مشکٰوۃشریف میں محبوبِ خدا رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک فقیہ یعنی ایک عالم دین شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔علم دین سے دل زندہ ہوتا ہے۔عالم کی فضیلت جاہلوں پر ایسی ہے جیسے چاند کی فضیلت ستاروں پر(فیضانِ شریعت 619ص)حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ جس نے قرآن کاعلم سیکھااس کی قیمت بڑھ گئی جس نے علم فقہ سیکھا اس کی قدر بڑھ گئی
جس نے حدیث سیکھی اس کی دلیل قوی ہوئی جس نے حساب سیکھا اس کی عقل پختہ ہوئی جس نے نادر باتیں سیکھی اسکی طبیعت نرم ہوئی اور جس نے اپنی عزت نہیں کی اسے علم نے کوئی فائدہ نہ دیا (مکاشفۃ القلوب) کیاعالم اور جاہل دونوں برابر ہیں
قرآنِ مقدس میں یہ واضح انداز میں ہماراخالق ومالک رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ کیاعالم اور جاہل دونوں برابر ہیں مطلب و مقصد صاف عیاں ہے کہ عالم نوروالاہے اور جاہل اندھیرے میں ہے اور جہالت موت ہے اور علم زندگی ہے قرآنِ مقدس پارہ نمبر 23 سورہ زمر آیت نمبر ۹میں اللہ نے ارشاد فرمایا۔ تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔ قرآن و احادیث میں جس علم کی فضیلت کو بتایا گیا ہے اور مولا علی شیرِ خدا نے جس علم کو زندگی سے تعبیر فرمایا ہے تو آخر ہم معلوم کریں وہ کونسا علم ہے؟کیا وہ اسکول اور کالج کا علم ہے تو نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ علمِ قرآن و حدیث کا علم ہے شریعت و سنت کا علم ہے وہ علم ہے جس کو پڑھ کر ہمارے مدرسوں کے بچے حافظِ قرآن عالم دین بنتے ہیں ،جلیل القدر محدث حضرت محمد بن سیرین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایاکہ بے شک یہ علم(یعنی قرآن وحدیث کاعلم) دین ہے۔محترم دنیاوی تعلیم کا حصول منع نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ دین و ایمان سلامت رہے عالم حافظ مفتی قاری اس وقت بنتے ہیں جب وہ اپنے شہر سے اپنے گاؤں سے ماں باپ بھائی بہن رشتہ داروں کو چھوڑ کر سالوں سال کسی دینی درسگاہ میں قابل علماء کی نگرانی میں بڑی محنت ومشقت سے رات دن ایک کرکہ وقت کی پابندی کے ساتھ علم حاصل کرتے ہیں۔حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص علم دین حاصل کرنے کے لئے نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے جب تک کہ واپس لوٹ نہ آئے۔سیدنا حضرت ابو داؤد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص علم تلاش کرنے کے لئے کسی راہ پر چلتا ہے اللہ عزوجل
اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور بے شک فرشتے طالب علم کے عمل پر رضامند ہوتے ہیں اس کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں زمین وآسمان کی ہر چیز حتیٰ کہ پانی کی مچھلیاں عالم کے لئے طلب مغفرت کرتی ہیں عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو تمام ستاروں پر فضیلت حاصل ہے ترمذی مشکٰوۃابوداؤد شریف میں ہے کہ ہمارے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک علماء انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث(نائب) ہیں اور انبیائے کرام علیہم السلام دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے وہ علم کا وارث بناتے ہیں پس جس نے علم حاصل کیا اس نے اچھا خاص حصہ پایا۔ جب علم ہی نہیں تو عمل کیاہوگا۔جس خیاباں میں شجر نہیں تو پھل کیاہوگا
علماء سے بغض رکھنا
عالم سے بغض رکھنے والا عذاب میں گرفتار ہوگا مولا علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ علماء امت کے چراغ ہیں دنیا اور آخرت دونوں میں وہ لوگ ہوں گے جوعالم کے مقام ومرتبہ کو پہچانیں۔ اور جن لوگوں نے علماء سے بغض رکھا اور ان سے گستاخی اور بے ادبی کی ایسے لوگوں کے لئے (دونوں عالم )میں عذاب ہے(درۃالناصحین صب33)
علماء کا حق ماں باپ سے زیادہ ہے
حضرت امام محمد غزالی رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت یحیٰی بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ علمائے کرام امت محمدیہ پران کے ماں باپ سے بھی زیادہ رحم کرنے والے ہیں پوچھا گیاوہ کیسے تو انہوں نے کہا اس لئے کہ ماں باپ اولاد کو دنیا کی آگ سے بچاتے ہیں اور یہ علماء کرام ان کو آخرت کی آگ سے محفوظ رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ علم کا پہلا مرحلہ خاموشی ہے پھرغورسے سننا پھریادرکھنا اس کے بعد عمل کرنا اس کے بعد اس علم کو پھیلانا ہے۔ احیاء العلوم ج1ص61) عالم کو اپنا مقام یاد رکھنا ہے پہلے علم کے مطابق عمل کیا جائے پھر دوسروں کو وعظ و نصیحت کی جائے اورعلم سکھایا جائے ورنہ علم بے اثر ہو کر رہ جائے گا اور کسی بات میں بھی کوئی اثر نہ رہ جائے گا اسی لئے عالم باعمل رہیں عالم کی فضیلت اللہ ورسول نے بڑھائی ہے کسی دنیاوالے نے نہیں علماء کوخلوص واخلاص کے ساتھ دین کی خدمت کرنی چاہیے اجردینے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کی ہے۔ڈاکٹر محمد اقبال لاہوری نے کہا
زباںسے کہ بھی دیا ،لاالہ، تو کیا حاصل
دل ونگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
تحریر ۔محمد توحید رضا بنگلور
محمد توحید رضا امام مسجدِ رسول اللہ ﷺ خطیب مسجد رحیمیہ میسورروڈ بنگلور مہتمم دارالعلوم حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ [email protected]
نوری فائونڈیشن بنگلور کرناٹک انڈیا رابطہ۔ 9886402786