جموں کشمیر میں لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت والی سرکار کی طرف سے گزشتہ چند ہفتوں سے سرکاری اراضی اور کاہچرائی کی زمین پر ناجائز قبضے کو ہٹانے کا سلسلہ بڑی شدت کیساتھ جاری ہے۔ اس سلسلے میں شمالی ، جنوبی اور وسطی کشمیر میں ہزاروں کنال سرکاری اراضی بازیاب کرائی گئی جب کہ مہم ابھی بھی جاری ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی کے مابعد جموں کشمیر میں متعدد ایسے وفاقی قانون نافذ کئے گئے جو یہاں ماضی میں نافذ العمل نہیں تھے۔ نیزسرکار کی جانب سے کئی ایسے اقدامات اُٹھائے گئے جس کی عوامی سطح پر حوصلہ افزائی ہوئی۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ یہاں مہاراجہ ہری سنگھ کے دور سے مقامی لوگوں کو زمین کے اختیارات دئے گئے تھے جس پر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ لوگوں نے نہ صرف کئی اپنی رہائش گاہیں تعمیر کی تھیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مقامی آبادی نے اپنا کاروبار بھی اس زمین پر شروع کیا تھا۔تاہم لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت والی سرکار نے ایک غیر معمولی فیصلہ لیتے ہوئے کہا کہ جس کسی بھی شخص کے پاس سرکاری زمین ہوگی اُس کو واپس بازیاب کیا جائیگا۔ سرکار کے اس فیصلہ سے ابتداعی طور پر اگر کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا تاہم رفتہ رفتہ جونہی مہم شروع ہوئی اور عام لوگوں بالخصوص غریبوں کی رہائش اور معاش جونہی متاثر ہونے لگا تو وادی کیساتھ ساتھ جموں خطہ میں بھی سرکار کے فیصلہ کے تئیں عوامی ناراضگی ظاہر ہونے لگی۔ وادی کشمیر میں اگرچہ اس انہدامی مہم کیخلاف کوئی بڑی مزاحمت نہیں دیکھی گئی تاہم جموں میں گزشتہ ہفتہ ملک مارکیٹ میں جونہی انہدامی ٹیم نے کارروائی شروع کی تو وہاں موجود عوامی بھیڑ نے انہدامی ٹیم کیساتھ ساتھ سیول محکموں کے اہلکاروں پر بھی پتھرائو کیا جس کے بعد یہاں صورتحال سنگین رُخ اختیار کرگئی۔ جموں کی انتظامیہ نے حالات کی سنگینی کو دیکھ کر بھیڑ کو تتر بتر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کرنے کے علاوہ بھیڑ پر آنسو گیس کے گولے بھی داغے۔ واقعہ کے فوراً بعد جموں کی خاتون ڈپٹی کمشنر نے اپنے ویڈیو پیغام میں عوام کو سرکار کی جانب سے انہدامی کارروائی میں تعاون دینے کی اپیل کی اور ساتھ ہی ساتھ انہیں یقین دلایا کہ غریب لوگوں کے معاش اور رہائشگاہوں کیساتھ نہیں چھیڑا جائیگا۔ ادھر وادی میں بھی چھوٹے پیمانے پر لوگوں کے اندر مہم کیخلاف غم و غصہ کی لہر اُس وقت پیدا ہوئی جب انتظامیہ نے سرینگر سمیت وادی کے دیگر حصوں میںغریب لوگوں کی رہائش گاہوں اور دوکانات پر بلڈوزر چلائے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جموں کشمیر کی غریب آبادی کے پاس سرکاری زمین کا کوئی بڑا حصہ نہیں ہے بلکہ اُن کے پاس محض چار، پانچ یا دس مرلے کا زمین پلاٹ ہے جس پر یا تو انہوں نے اپنی رہائش کیلئے چار دیواری تعمیر کی ہے یا پھر معمولی سی کوئی دوکان قائم کی ہے تاکہ اپنے اہل و عیال کا پیٹ پال سکے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری اہلکار وں نے ایسے غریب طبقہ کی رہائش اور معاش پر بلڈور چلانے سے قبل انہیں کسی بھی قسم کی نوٹس جاری نہیں کی جو کہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ اس معاملے پر لیکر گزشتہ کئی روز بھی اب سیاسی گلیاروں میں بھی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہدامی کارروائی کو جائز طریقے سے آگے بڑھایا جائے اور جہاں مسماری کی ضرورت ہو وہاں اُس سے قبل متعلقین کے نام نوٹس جاری کی جانی چاہیے کیوں کہ قانون کا پاس و لحاظ رکھنا ہر ایک شہری کی ذمہ داری ہے۔