ظلم کی داستان ازل سے ہے اور اب تک اپنے عروج کے ساتھ قائم و دائم ہے ، یہ حقیقت ہے کہ جس کو اس دنیا میں طاقت ملی اُس نے اسی طاقت کا نا جا ئز فائدہ اُٹھا تے ہو ئے نا صرف دوسروں کی عزت نفس اور آزادی کو روندہ بلکہ پستی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ۔ تاریخ بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے ، شاید طاقت کے معنی ہی ظلم و ستم کی انتہا پر ختم ہو تے ہیں کہ انسانیت کا عنصر ہی ختم ہو جا تا ہے ۔ انسان بھی کتنی عجیب فطرت لے کر آتا ہے کہ وہ طاقت ور بنے یا مظلوم یہ تو اس کے لئے وقت اور حالات تعین کر تے ہیں کہ اس نے اپنی زندگی کیسے بسر کر نی ہے ۔
ظلم کی داستانیں تو ہر دور میں رہتی ہیں۔ پرا نے وقتوں میں انفرادی طور پر اپنی طاقت کا استعمال کر تے ہو ئے لوگوں کی زندگیوں کو غلام بنا لیا جا تا تھا ، غلا موں کی تجارت ہو تی تھی ، با قاعدہ ان کی منڈیاں لگا کر تی تھیں اور وہاں کمزور انسانوں کو غلام بنا کر ان کی قسمت کا فیصلہ کیا جا تا تھا اور ان کی زندگی کو ابتر بنا کر رکھ دیا جا تا تھا ۔ اُن غلاموں کی کوئی نہ اہمیت تھی نہ ان کی کوئی حیثیت ، بس ان غلاموں کی سفا کی کا عالم بھی انتہا پر تھا ۔ فرعونوں کے ادوار کی تاریخ ظلم کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ۔ جس میں انسانوں کی نہ اپنی مر ضٰ نہ اپنے فیصلے ، جو حکم با دشاہ کا وہی انسان کی زندگی کا عمل ٹھہرا یا جا تا تھا ۔ ظلم کی انتہا تو حضرت مو سیٰ ؑ کے دور کا وہ واقعہ کہ فرعون کو کسی نجو می نے کہا کہ تمہاری با دشاہت اور طاقت کا زوال ہو نے والا ہے ، تمہاری قوم میں ایک لڑکا پیدا ہو نے والا ہے جو تمہاری با دشاہت کے زوال کا سبب بنے گا تو فرعون نے اپنی مملکت میں تمام پیدا ہو نے والے لڑکے کو پیدا ہو تے ہی مار دینے کا حکم دیا اور یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلا ، لیکن قدرت کو جو منظور تھا اور اس نے جس کو زندگی دینی تھی اس ذات باری نے حضرت مو سی ؑ کو پیدا ہو تے ہی فرعون کے جلادوں کے ہا تھوں محفوظ رکھا بلکہ فرعون کے گھر میں اس کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھایا اور انھوں نے اسی محل میں فرعون کی ظلمت کو للکارا بلکہ اس کی فرعونیت کے سامنے کھڑے ہو گئے ، ان ہی کی وجہہ سے فرعون کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمندر بُرد ہو گیا بلکہ رہتی دنیا تک کے لئے عبرت کا نشان بن گیا اور آج فرعون کی حنوط شدہ لا ش قاہرہ مصر کے عجائب گھر میں عبرت کا نشان بنی پڑی ہے ۔ یہ تھی فرعون کی فرعونیت کا انجام ۔
آج کے دور میں ظلمت اور طاقت کی مثال بھی اُسی کے حوالے سے دی جا تی ہے ۔ فرعون دریائے نیل میں ڈوب کر فنا ہو گیا لیکن ظلم فنا نہیں ہوا۔ اس کے بعد میں آنے والے ادوار میں ظلم میں نہ کمی ہوئی اور نہ ہی ختم ہو نے کی کوئی امید پیدا ہو ئی ۔ چنگیز خان ، ہلا کو خان ان کی بر بریت سے تاریخ لہو لہان ہے ۔ مائیں اپنے بچوں کو ان کے نام سے ڈراتی تھیں ، شہروں کے شہر اور آبادیوں کو ویران کر نا ان کا مشغلہ تھا ۔ انسانی خون کی خوشبو سے ان کو اُنسیت ہو گئی تھی ۔ تاریخ میں کہیں بھی ان کی رحمدلی کا کوئی قصہ بیان نہیں ہوا، صرف ظلم ، ظلم اور ظلم ہی ان کا نصب العین تھا ۔
یہ دنیا کا اصول رہا کہ طاقت ور ظلم ہی کر تا ہے مگر جب ہم اسلامی تا ریخ کو پڑھیں تو یہ معاملات کچھ اور نظر آتے ہیں ، یہ نہیں کہ میں ایک مسلمان ہو تو ایسا لکھ رہا ہوں ، نہیں ، بلکہ اس حقیقت کو غیر مسلموں نے بھی مانا ہے کہ مسلم فاتحین جہاں کہیں فتو حات کے لئے گئے وہاں امن و امان کا پیغام لے کر گئے ، ظلم کے خلاف نجات د ہندہ بن کر گئے ، جن جن علاقوں کو فتح کیا وہاں عوام میں مقبول ہو ئے ، نہ کسی کو غلام بنایا، نہ کسی کے ما ل و اسباب کو تباہ کیا اور نہ ہی کسی کی عزت کو تار تار کیا بلکہ سب کو برا بری کا درجہ دیا ۔ حضور اکرم ﷺ کے زما نے میں فتو حات محدود تھیں ، لیکن اصل فتو حات حضرت عمر ؓ کے دورِ خلافت میں ہو ئیں اور ان کی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوا، یہ وہ دور تھا جب اسلام عرب سے نکل کر دراز کے علاقوں تک پھیل رہا تھا ۔ جہاں انسانوں کے لئے قانون و حقوق تھے ، وہاں جانوروں کی بھوک کا بھی احساس تھا ، یہی وجہہ تھی کہ مسلمان فا تحین کو ہمیشہ ظلم کے خلاف لڑ نے کے لئے ہی دوسری اقوام نے بلایا اور امان پائی ۔ لہذا مسلمان حکمرانوں نے بھی محکوم قوموں کو ایک طرز زندگی دی ، ایک تہذیب دی اور تاریخ میں نام بنایا، مگر ہم اپنی خوبیوں کو غلطیوں پر پرکھنے کے عادی ہو چکے ہیں اور دوسری طرف مہذب دنیا کی چکا چوند ترقی نے ہمیں اپنے قاتحین کی فتو حات اور کار ناموں کو فراموش کر کے اپنے آپ کو غلط ثابت کر نے پر بضد ہیں ۔
گوری چمڑی والی اقوام دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی گئیں وہاں اپنے اپنے کا لے دلوں اور ظالمانہ سوچ کی وجہہ سے کیا کیا ستم نہیں ڈھا ئے کہ ان کے مظالم کی داستانیں لکھنے کے لئے ہمت چاہئے ۔ اُن کو تہذیب یا فتہ اور مہذب ہو نے کا ثبوت آج دنیا دیتی ہے مگر ان کے ظلم کی داستانوں کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، جہاں کہیں ان غیر مسلم اقوام نے قبضہ کیا وہاں کے با شندوں کے جسم و روح کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ بر طانوی سامراج نے بر صغیر میں تجارت کی آڑ میںیہاں قدم جمایا پھر یہاں کی مقامی ریاستوں اور مغلیہ شہنشاہیت میں دخل اندازی کی اور آہستہ آہستہ طاقت کا استعمال کر تے ہو ئے طرح طرح کی سازشیں کیں ، غدار بنا ئے اور بے اصولی کے بہت سے اور طریقے متعارف کروائے اور پھر بلا آخر یہاں فتح بر طانوی فوج کی ہوئی ۔ اور پھر انگریزوں کے بر صغیر پر قبضہ کر نے کے بعد مقامی لوگوں کو اپنا غلام بنا نے کے لئے سخت قوانین بنا ئے ۔ مقامی افراد میں سے کوئی اگر بغاوت کر تا یا کوئی ان کے ظلم کے خلاف آواز اُٹھا تا تو انھیں قید تنہائی کی سزا دینے کے لئے دور دراز مقامات میں کالا پانی جیسی سزا گاہیں بنائیں جو عمو ماً ویران سمندری جزیروں اور جنگلوں پر مشتمل ہوتی تھیں ۔ آج ایک انداز ے کے مطابق صرف اور صرف مسلمانوں کے اوپر ظلم ڈھا ئے جا رہے ہیں اور تو اور مسلمانوں پر ہو نے والے مظالم کے خلاف نہ تو آواز اُٹھا ئی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی راستہ نکالا جا رہا ہے بلکہ مسلمانوں پر کئے جا نے والے مظا لم کی دبے لفظوں سے حمایت بھی نہیں کی جا تی ہے اور مسلم ممالک بھی مسلمانوں پر ہو نے والے مظالم پر آواز اُٹھا نے کو تیار نہیں ۔ دوسری طرف اگر وہ ظلم کسی غیر مسلم پر ہو تو پوری دنیا میں شور مچ جا تا ہے مگر مسلمانوں کے اوپر ہو نے والے مظالم کسی کو نظر نہیں آتے ۔ مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہو ں انسانیت سے گری حرکات ، املاک کا نقصان ، عورت کی عصمت دری یا بچوں کا استحصال یہ سب شاید مسلمانوں کے لئے دنیا کی طاقتور قوتوں نے طے کر لی ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کو تباہ و بر باد کر نا ہے ۔
دنیا شاید بدل رہی ہے ، آج وہ سب کچھ جو کل تک ظلم کے زمرے میں آتا تھا آج وہ سر ما یہ دارا نہ مصلحتوں کی بھینٹ چڑھتا نظر آرہا ہے ۔ ابتدا کوئی کر تا ہے ، عمل کوئی اور کر تا ہے اور بھگتّا مسلمان ہے ۔ آج دنیا بھر میں اسلام کے ما ننے والوں کی شامت آگئی ہے ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں تو اُن کا جینا حرام ہو گیا ہے ، اپنے ملک ہندوستان میں بھی ہندوئوں نے مسلمانوں کو دنیا سے کوچ کروانے کا ٹھیکہ حاصل کر لیا ہے ، کیونکہ غیر مسلموں کو مسلمانوں سے ہندوستان کو خطرہ ہے اسی کو وجہہ بنا کر مسلمانوں کے ہی امن و امان کو پا مال کیا جا رہا ہے ۔ ان کے نزدیک اب اسلام ایک جرم ہے اور مسلمان ہو نا جرم کے دائرہ میں گنا جا تا ہے ۔ دنیا کے امن اور بد امنی کے معنی کچھ یوں ہو چکے ہیں کہ مسلمان ہی ظلم کر تے ہیں ، دنیا کا امن تباہ کر تے ہیں اور اُن کے لئے سزا بھی فوراً تجو یز کر کے عمل در آمد کر دیا جا تا ہے اور سزا سہتے بھی مسلمان ہیں ۔ یہ کیسے جنگل کے قانون مسلمانوں کے لئے بنا دئیے گئے ہیں ؟۔
آخر میں صرف اتنا کہنا ہی رہ جا تا ہے کہ غیر مسلم اقوام میں جا نوروں کے لئے صلہ رحمی تو آج بھی قائم ہے ۔ ان کے نزدیک مسلمان ہی ظالم ہیں اور ہر ظلم کا پہاڑ بھی مسلمانوں پر ہی ٹوٹتا ہے ۔ کس سے شکوہ کر یں ، اپنی بے بسی کے عالم کا کہ مسلمان حکمرن بھی کسی مظلوم مسلمان کا ساتھ دینا تو دور کی بات لفظی حمایت کر نے سے بھی ڈر تے ہیں کہ کہیں اُن کا سر ما یہ ڈوب نہ جا ئے ۔ یعنی انسانیت سے زیادہ دنیا وی مال زر کی اہمیت ہے ۔ کیا کوئی محمد بن قاسم ؒ ، مو سیٰ بن نصیر ؒ ، صلا ح الدین ایو بی ، نورالدین زنگی آج کے لئے نجات دہندہ بن کر آئے گا ؟ ۔
قیصرمحمود عراقی
کریگ اسٹریٹ، کمرہٹی، کولکاتا، ۵۸
موبائل:6291697668