از قلم:۔ طارق اعظم کشمیری
تواریخ کے اوراقوں پر جب نظریں پڑتی ہیں۔ تو گزرے ہو زمانوں کے مناظر نگاہوں کے سٹیج پر عیاں ہوجاتے ہیں۔ اور قسم وار قستوں اور کرداروں کی اداکاری کا جلوہ افروز ہوجاتا ہے۔ کبھی کھبار یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ فرحتِ بے کراں محلوں اور گلیوں میں رواں دواں ہوتی تھی۔ اور بعض اوقات غم اور خوف نے ہر گھر کی دہلیز پر ڈھیرا ڈالا ہوا تھا ۔ مطلب کہ خوشی اور غم محوِ گردش ہر زمانے میں رہتے ہیں۔ کبھی بہار نے اپنے سارے رنگوں کی تمنا اور آرزو مکمل کردی تو کبھی خاموشی اور ماتم سا جیسا ماحول موت نے وبا کا لباس پہن کر دہر کے سینے کو لرزایا۔ زمانوں میں وبایں کسی نا کسی صورت میں داخل ہو ہی جاتی ہے۔ اور موت کی گنتی میں اضافہ کرتی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ وبا کی زد میں آکر اسکا شکار بن گیں۔ اور یہی صورت زمانہ حال میں پھر وجود میں آی نتیجہ ہر دیکھنے والی آنکھ پر ظاہر ہے۔ مگر اس کورونا سے بھی زیادہ ہولناک بیماری پیدا ہوگ ے۔جس نے ہماری معاشرے کی پرکھچے اُڑا دی ہے۔ اس توڑ کر کرچے کرچے کردیا ہے۔ مزاروں کو آباد کردیا۔ ماتم کا ماحول برپا کیا۔ بھای کو بہن سے اور بہن کو بھای سے والدین کو اولاد سے اور اولادوں کو والدین سے دودست کو دوست سے جدا جدا کردیا۔ یہ بیماری ہے کیا؟۔ جس کی تاثیر نے لبوں کو سہی دیا۔ آنکھوں کو دھنگ اور دل و عقل کو حیران کر کے رکھ دیا۔ ہم سب اس چیز سے بلکل واقفیت رکھتے ہیں۔ کہ ہمارے سماج میں کیا کیا ہو رہا ہے آج کل ۔ خودکشی ایک رواج بن چکی ہے جس کے استعمال سے مغموم اور پست ہمت لوگ اجل کے مہمان بن جاتے ہیں۔ اور باقی رہنے والے اقاربوں کے مہتے پر فرقت کا داغ دیتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے تنگ آ ہو لوگوں نے ایک الگ راہ اختیار کر لی ہیں۔ چنانچہ جس راہ پر وہ جارہے ہیں اس کے آگے کوی منزل ملنے والی نہیں بلکہ سراب اور افساس کی ملاقاتیں نصیب ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کیوں ایسا کررہے ہیں۔
ہم زمان کا جو صورتِ حال ہے وہ بہت ہی افتاد کن ہے۔ صبر ، توکل اور امید کے زخیروں سے نا شناس لوگوں نے اپنے ذہن اور دل کو دباو اور مایوسی کی زنجیروں میں قید کردیا ہیں۔ تنگ نظری میں گرفت اور وسیع نظر کے نابینوں نے معاشروں کے دامنِ ابیض پر افسوس اور زلت کا بدنما داغ پیوست کیا۔ کوی خوابوں کی محل بنانے کے چکر میں ناخن چبا رہا ہے ۔ تو عشقِ مجازی سے فریب ملنے پر زہر اور گلہ دبانے سے کام تمام کردیتا ہے۔ اس بیماری میں اکثر و بیشتر مرد کیا زن تک مبتلا ہوچکے ہیں۔ کیا کیا جاے۔۔۔۔۔ سب مفکر و مبلغ حیرت میں گم ہیں۔ تحریروں سے تقاریروں سے آگاہی بھی ہوی۔ لیکن مردِ نادان پر ہے کلامِ نازک و بے اثر۔ شاید یہ عذاب ہی چل رہا ہے۔ خدا اور خدا کے رسول ﷺ سے نا آشنای کی۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو ان گنہونی حرکتوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ۔ تو گھروں میں اولادوں کو صالح تربیت سے روشناس کریں۔ اور پھر استاتذہ حضرات اپنے اپنے مدرسوں اور اسکولوں میں زندگی بنانے اور سنورنے کے اسلوب اور ڈھنگ سکھایں۔ تاکہ جوانوں کی قوت دین اور قوم کے کام آیں۔ جیسے ہمارے آقا ﷺ نے صحابہ کی جماعت پر بے انتہا محنت کی ، مشقت کی ، تربیت سے سرفراز کیا۔ اور آج ہم پڑھتے ہیں کہ آصحابِ کبار ؓ نے کتنے لاجواب انقلاب دنیا میں لایں۔ اور سکون و راحت کی فضا ٕ قام کی۔ لحاظہ ذہن کو کسی فضول مشغل میں مصروف رکھنے سے بہتر ہے قرآنِ کریم کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پڑھیں، رسولِ کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے اپنی روح کو سرشار کریں۔ ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کی تواریخ کا مطالعہ بھی کریں۔ تاکہ ہمیں پتہ چلیں کہ زندگی میں ہر آنے والے غم کو کیسے ہنڑل کر سکھے۔ خدا ہم سب کی زندگی کو غم کے خوف سے محفوظ رکھیں اور دامنِ حیا کو بےداغ رکھیں۔
از قلم:۔ طارق اعظم کشمیری
ساکنہ:۔ ہردوشورہ کنزر
رابطہ:۔ 6006362135