رخسار کاظمی(پونچھ)
کسی بھی ملک کے بچے اس کا آنے والا مستقبل ہوتے ہیں اور اگر انہیں بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا تو وہ ملک کے مستقبل کی تعمیر کیسے کر سکیں گے؟ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب ہر شہری کو سوچنے کی ضرورت ہے،جبکہ آج پوری دنیا میں کروڑوں بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ سال 2021میں جاری کردہ عالمی ادارہ محنت اور اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ کی نئی مشترکہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں ہر دس بچوں میں سے ایک بچہ مجبوراً مزدوری کر رہا ہے۔ جبکہ رپورٹ مزید کہتی ہے کہ 2016 کے مقابلے میں اس تعداد میں 84 لاکھ بچوں کا اضافہ ہوا ہے۔جبکہ گزشتہ 20 برسوں سے عالمی ادارہ محنت ہر سال یہ اعداد و شمار جمع کر رہا ہے اور پہلی بار اس تعداد میں اتنا بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 8 کروڑ بچے ایسا کام کرتے ہیں، جسے صحت کے لئے نقصان دہ قرار دیا جا سکتا ہے۔جبکہ ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے مضر کام کو بدترین چائلڈ لیبر شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے خطرناک ہوتا ہے، اور ایسے کاموں سے بچے اپنی جان سے جا سکتے ہیں۔وہیں عالمی ادارہ محنت کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 70 فی صد بچے زراعت کے پیشے سے، 20 فی صد خدمات کے شعبے سے، جس میں گھریلو کام کاج شامل ہے اور 10 فی صد صنعتی پیشے سے منسلک ہیں۔ تاہم اس سے صاف ظاہر کہ بچہ مزدوری ایک عالمی سانحہ ہے جو دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان میں اس کی تعداد ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ 26لاکھ 66ہزار ہے، جبکہ کووٖڈ 19کے بعد اس تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس سلسلہ میں یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریٹا فور نے بھی چائلڈ لیبر کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کویڈ 19 نے صورت حال کو مزید بدتر کر دیا ہے۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ اگر حالات یہی رہے تو اگلے سال کے اختتام تک اس میں مزید 90 لاکھ مزدور بچوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ہم سب بخوبی جانتے ہیں بچہ مزدوری ایک عالمی مسئلہ ہے جس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں،وہیں مثال کیلئے میں قارئین کو یوٹی جموں و کشمیر کے تحت سرحدی ضلع پونچھ کہ کچھ بچوں سے ملاتی ہوں۔میں روز کی طرح اپنی تعلیم کے سلسلہ میں کالج جا رہی تھی -ایک بچی مجھ سے آکرپیسے مانگنے لگی، جس نے اپنا نام سلمہ بتایا،بچی کو دیکھ کر میرے ذہن میں سوال اور آنکھوں میں آنسوں آگئے کہ صبح کے وقت جب سارے بچے اسکول جا رہے ہیں،تو یہ بچی کیو ں نہیں جا سکتی،خیر جب میں نے اس بچی سے اس کے متعلق پوچھا کے پیسے کیوں مانگ رہے ہو،تو اس نے کہا کھانا کھانے کے لئے،اور کہنے لگی کہ اس کا باپ یوپی میں کام کی تلاش میں کئی عرصہ سے گیا ہے، مگر کوئی کام نہیں مل سکا۔
ماں اورمیرے بھائی بہن کو دو وقت کا کھانا نہیں مل رہا ہے اور مجبوراً ہمیں بھیک مانگ کر اپنا پیٹ بھرنا پڑ رہا ہے۔جب میں نے پوچھا کہ آپکو پڑھنے کا شوق نہیں،تو بچی نے بڑی گہری بات کہہ دی کہ ہم غریبوں کے شوق نہیں مجبوریاں ہوتی ہیں۔ بچی نے ساتھ یہ بھی کہا کے وہ مدرسہ پڑنے جاتی ہے مگر اسکول کے لیے داخلہ فیس کہاں سے لائے؟جب اس کو دو وقت کا کھانا کھانے کو نہی ملتا۔ اسی طرح ایک اور بچہ جس کا نام آصف ہے جس کی عمر قریباً 8 سال ہوگی۔جو اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ میرے کالج کے گیٹ کے سامنے بھیک مانگ رہا تھا،جن کا بھوک سے براحال ہو رہا تھا، وہیں وہ بچے میری دوست کو پکڑ کہنے لگے کہ دیدی ہمیں کچھ پیسے دے دو، کل سے کچھ نہیں کھایا۔تو اس سے صاف ہے کہ ان بچوں کامزدوری کرنا یا بھیک مانگنا اور کچھ نہیں محض دو وقت کی روٹی کیلئے ہوتا ہے، جبکہ ان کی تعلیم، صحت کا ضامن کون ہے؟
اسی سلسلہ میں جب میں نے میرے سنیئر اور چرخہ ٹرئنر سید انیس الحق سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں جب حکومتی ادارے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے نئے نئے اقدام اٹھا رہے ہیں، جن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے،بچہ مزدوری کو روکنے کیلئے بھی کئی ادارے با ضابطہ طور پر کام کر رہے ہیں مگر عملاً کیا ہوتا ہے اس کی مثال کیلئے اگر ہم صرف ضلع پونچھ میں پریڈ گراؤنڈ سے لے کر بس اڈہ تک ہی نظر ڈالے توکئی کم سن بچے دکانوں، ہوٹلوں، اور ریڑی، پھڑیوں پر کام کرتے نظر آجائیں گے۔جبکہ چودہ سال سے کم عمر کہ بچے کو کام پر رکھنا قانونی جرم ہے لیکن اس کے باوجود بچوں کو کم پیسے دیکر کام پر رکھ لیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان بچوں کا مستقبل خراب ہو جاتا ہے اور وہ تعلیم جیسی دولت سے فیضیاب نہیں ہو سکتے۔ واضح رہے حکومت نے حال ہی میں بچہ مزدوری روک تھام ریگولیشن ایکٹ 1986میں ترمیم کر بچہ مزدوری روک تھام و ریگولیشن ترمیمی قانون 2016وضع کیا ہے جو ایک ستمبر 2016سے با ضابطہ طور پر نافذ بھی ہو گیا ہے۔جس کے تحت 14سال سے کمر عمر کے بچوں کہ ذریعے کسی بھی پیشے اور طریقہ کار میں کام کرنے پر مکمل پابندی ہے۔ مگر با وجود اس کے پورے ملک میں بچوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اسے کسی بھی طرح سے جائز نہیں کہا جا سکتا ہے، اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، جس کیلئے حکومتی کوششوں اور قوانین پر عمل آوری کیلئے ہر شہری کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ (چرخہ فیچرس)