تحریر: جاوید اختر بھارتی
حال ہی میں دہلی کے رام لیلا میدان میں جمیعت علمائے ہند کا چوتیسواں اجلاس منعقد کیا گیا جس میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا تھا اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے شریک بھی ہوئے واہ واہی بھی ہوئی نعرے بازی بھی ہوئی ہنگامہ بھی ہوا توحید کا پیغام بھی دیا گیا حکومت وقت کو متنبہ بھی کیا گیا فرقہ پرستی کی مخالفت بھی کی گئی بین المذاہب اتحاد کا خواب بھی دیکھا گیا اور دکھایا گیا گنگا جمنی تہذیب کا حوالہ بھی دیا گیا اور مستقبل میں گنگا جمنی تہذیب کے فروغ کا عہد بھی دہرایا گیا مگر ان سب کے باوجود جمیعت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے خطاب کو متنازع بنانے کی بھرپور کوشش بھی کی گئی اور جین مذہب کے ایک رہنما لوکیش منی نے مولانا ارشد مدنی کی تقریر کو فالتو بھی کہا اور پلیتہ بھی کہا اور سخت تیور دکھاتے ہوئے اور ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اسٹیج سے اتر کر چلے بھی گئے مولانا ارشد مدنی نے یہی تو کہا تھا کہ ہم نے بڑے بڑے دھرم گروؤں سے پوچھا کہ آخر دنیا کے پہلے انسان منو کس کی عبادت کرتے تھے تو کچھ نے جواب دیا کہ اوم کی عبادت کرتے تھے اور اوم ایک ہے، اس کا نہ کوئی رنگ ہے نہ روپ ہے، بس ایک ہوا ہے اور ہر جگہ موجود ہے،، اگر ایسا ہے تب تو
اوم، ایشور، بھگوان، گاڈ، اللہ ایک ہی ہے اور سارے لوگ چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں وہ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام پہلے انسان ہیں اور پہلے نبی ہیں اور وہ ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اللہ نے حضرت آدم کو بھارت میں اتارا اس طرح ایک اللہ کی عبادت سب سے پہلے بھارت میں شروع ہوئی تو آج تینتیس کروڑ دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے والے بتائیں کہ کس کی گھر واپسی ہونی چاہئے مولانا ارشد مدنی کی تقریر میں کہیں سے کسی دوسرے مذہب کی یا اس کے ماننے والوں کی توہین کی جھلک نہیں ہاں ان سے ایک کمی رہ گئی کہ وہ منو کی تشریح نہیں کرسکے کیونکہ بعض چترویدی علماء آدم علیہ السلام کا نام آشو بتاتے ہیں اور وہ منو،، نوح علیہ السلام کو بتا تے ہیں اور حوالہ ہندو مذہب کی کتابوں کا دیتے ہیں لیکن مولانا ارشد مدنی صاحب نے ایسا نہ کرکے میڈیا اور دیگر لوگوں کو نمک مرچ لگانے کا موقع دیدیا کیوں کہ ایک وہ منو جانے جاتے ہیں جنہوں نے منو اسمرتی لکھا ہے جس کی پچھڑے اور دلت مخالفت کرتے ہیں تشریح نہ کرنے کی وجہ سے ہنگامہ برپا ہوگیا اور کہیں فتویٰ جاری ہونے لگا تو کہیں ایک عالم نے اپنی ایک تقریر میں مولانا ارشد مدنی کی شان میں انتہائی گھٹیا لفظ کا استعمال کیا جبکہ یہ بھی قابل مذمت ہے اور مولانا ارشد مدنی اگر خود ان کی جماعت کے ہوتے تو انہیں آل رسول کہتے اور ان کا بچاؤ کرتے کیونکہ مولانا ارشد مدنی بھی سید ہیں اور مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے میں سید برادری کو آل رسول مانا جاتا ہے-
پھر بھی جینی رہنما کے ذریعے طوفان بدتمیزی کا اظہار یقیناً قابل مذمت ہے،، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سارے لوگ مل کر اسی اسٹیج سے ایک آواز ہوکر پہلے جینی رہنما کے انداز بدتمیزی کی مذمت کرتے مگر ایسا نہیں ہوسکا یہیں سے بہت سے سوالات کھڑے ہوتے ہیں کہ بار بار بین المذاہب اتحاد کا نعرہ کیوں لگایا جاتا ہے اور یکطرفہ محبت کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے جمیعت جن جن مذاہب کے رہنماؤں کو اپنے بینر کے نیچے بلاتی ہے تو کیا ان لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ بھی ایسا ہی اسٹیج لگائیں اور مختلف مذاہب کے رہنماؤں کو مدعو کریں بالخصوص اسلامی رہنماؤں کو بلائیں آج تک تو ایسا نہیں دیکھا گیا دوسرا ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کیونکہ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ جمیعت کے ہی ایک دوسرے رہنما نے اسٹیج پر جو ہوا اس کے لئے یہ کہہ کر معافی مانگی ہے کہ ہمارے اسٹیج سے دوسرے مذہب کے لوگوں کو جو ٹھیس پہنچی ہے ہم اس کے لئے سو بار معافی مانگتے ہیں،، تو جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب توحید کی دعوت دی گئی تو ٹھیس کہاں پہنچی اور اگر کسی کو برا لگا تو یہ اس کی لاعلمی ہے جہالت ہے اور آپ نے جو معافی مانگی تو کسے خوش کرنے کے لئے؟ اس لئے کہ جب توحید کی دعوت دی جائے گی تو کوئی نہ کوئی مخالفت کرنے والا چہرہ تو سامنے آئے گا ہی یہ روایت تو چودہ سو سال پہلے سے چلی آ رہی ہے مگر مخالف کو خوش کرنے کی روایت تو کہیں نہیں ملتی اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ کا یہ قدم کس روایت سے جڑرہا ہے اور کس نظرئیے کی حمایت کررہا ہے-
جین سماج کے مذہبی پیشوا کے ذریعے مولانا ارشد مدنی صاحب کی تقریر کی مخالفت میں سرعام اسٹیج سے بدتمیزی کرنا یہ صرف عقیدۂ توحید سے دشمنی کا کھلا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کے دلوں میں بڑھتے ہوئے گھمنڈ کا ثبوت ہے، موجودہ بی جے پی حکومت کے طور طریقوں نے ہندوستان کے غیرمسلموں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت بڑھادی ہے اور پنڈتوں اور سادھوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کی حقارت ڈال دی ہے جس کا مظاہرہ وہ جابجا کرتے رہتےہیں، اسی تکبر میں وہ مسلمان کو برابری کا درجہ تو درکنار عقیدۂ توحید پر آزادی سے عمل کرنے کی اجازت دینا بھی گوارہ نہیں کرتےہیں _ یہ سبق ہے اور درسِ عبرت ہے کہ جن لوگوں کو آپ اپنا ساتھی، شریک، اتحادی اور بھائی بنانا چاہتےہیں ان کے ذہن میں آپکے لیے نفرت اور دل میں آپکی حقارت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ آپکی ہزاروں عوام کے سامنے آپ کے ہی اسٹیج پر آپ سے بدتمیزی کرنے سے بھی باز نہیں آرہے ہیں،
جمعیۃ علمائے ھند کے سب سے بڑے اسٹیج پر پیش آنے والا یہ واقعہ ناخوشگوار نہیں بلکہ سبق آموز ہے، مجھے امید ہےکہ اس سے ہمارے لوگوں کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ موجودہ سَنگھی عہد کی ہندوتوائی گنگا۔جمنی تہذیب کا اصل مطلب سمجھ سکیں گے۔
میرا یہ احساس ہےکہ اللہ تعالٰی نے بھارتی مسلمانوں کے سب سے بڑے اسٹیج پر اس واقعے کی رونمائی کےذریعے مسلمانانِ ہند کو بہت ہی صاف صاف پیغام کےذریعے رہنمائی کی ہے، مسلمانوں کی ترقی و سربلندی اور امن و انصاف کے لیے کفر کا سہارا کھوکھلا ہے، خاص طورپر جب نظریاتی شرک برسراقتدار ہوتو کفر و ایمان کا اتحاد فطری طورپر ناممکن ہے جب تک کہ اہلِ ایمان زمینی سطح پر اپنی ایمانی طاقت کا اسلامی بنیادوں پر لوہا نہ منوالیں _
کاونڑیوں پر پھول ہم برسائیں، کاروں کے شیشے کھول کر گائے کو کیلا ہم کھلائیں، بین المذاہب اتحاد کا نعرہ ہم بلند کریں، مسلکی دوری کو ہم فروغ دیں، تمام مذاہب کے رہنماؤں کو بلاکر انہیں قرآن و حدیث کی دعوت ہم دیں اور خود قرآن و حدیث سے دوری ہم بنائیں تو یہی نتیجہ سامنے آئے گا جو جمیعت کے چوتیسویں اجلاس میں نتیجہ سامنے آیا کیونکہ اگر دوسروں کو گڑ کھانے سے پرہیز کرنا بتانا ہے تو پہلے خود گڑ کھانے سے پرہیز کرنا ہوگا ورنہ کل پھر کوئی شخص کھڑا ہوگا اور پوچھے گا کہ مجھے کوئی ایسی کتاب دو جسے پڑھ کر میں دین اسلام اور پیغام اسلام کو سمجھ سکوں اور وہ کتاب ایسی ہو جس پر ہر مسلمان کا اتفاق ہو تو بتاؤ اسے کون سی کتاب دوگے،، ظاہر بات ہے کہ آپ اسے قرآن مجید ہی دیں گے اب اسے پڑھنے کے بعد وہ شخص آپ سے پوچھ بیٹھے کہ حضرت آپ نے مجھے جو کتاب پڑھنے کے لئے دیا ہے تو کیا آپ نے بھی اسی قرآن کو پڑھ کر دین اسلام کو سمجھا ہے اور آپ جس طرح زندگی گزاررہے ہیں تو کیا اسی قرآن سے پڑھ کر اور سمجھ کر گزاررہے ہیں تو کیا آپ کے پاس کوئی جواب ہوگا؟
اس لئے کہ قرآن میں تو وعتصمو بحبل اللہ بھی ہے، کنتم خیر امت اخرجت للناس بھی ہے، ولا تہنو ولا تحزنو وانتم الاعلون بھی ہے وغیرہ وغیرہ اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں اشارتاً اتنا ہی کافی ہے وہ شخص پوچھ بیٹھے کہ مسلمان اتنے فرقوں میں کیوں بنٹا ہے، ایک دوسرے پر لعن و طعن و تکفیر کے جملے کیوں استعمال کرتا ہے، دنیا بھر میں مسلمانوں کی رسوائی کیوں ہورہی ہے اور عرصہ حیات تنگ کیوں کیا جارہاہے، خصوصاً ہندوستان میں تمہاری سیاسی شناخت کیوں نہیں ہے جبکہ قرآن تو تمہاری سربلندی کا اعلان کررہا ہے اور حال یہ ہے کہ کسی ملک میں حکومت ہے بھی تو کوئی دم خم نہیں ہے تو آپ کے پاس کوئی جواب ہے یا جواب ہوگا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی جواب نہیں ہے،، اس لئے ضروری ہے کہ ہم وہ طریقہ اختیار کریں کہ اس سے متعلق کوئی سوال کرے تو ہم سینہ ٹھونک کر جواب دے سکیں کیونکہ ایک ہی سینے میں خوف خدا اور دنیا کا خوف دونوں نہیں رہ سکتا،، اللہ کو راضی کرنے کا اور دنیاوی شخصیات کی چمچہ گیری و چاپلوسی ایک ہی سینے میں ایک ساتھ نہیں ہوسکتا اسی لئے کہا گیا ہے کہ جو ڈرگیا وہ مومن نہیں اور جو مومن ہے اسے دنیاوی شخصیات کی ناراضگی کا غم نہیں کیونکہ جو حق ہے تو حق ہے-
ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ہم مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے اسٹیج تیار کریں کل مسلکی کانفرنس کا انعقاد کریں ایک دوسرے کے پروگرام میں مدعو کرنے اور شریک ہونے کی راہ ہموار کریں مسلمانوں میں جو مختلف طبقات ہیں ان طبقات کی جو صنعتیں ہیں اس کے فروغ کے لئے اور انہیں سرکاری مراعات و سہولیات فراہم کرانے کے لئے مضبوط لائحہ عمل تیار کریں اور حکومت کے سامنے پیش کریں اس اقدام سے آخر مسلمان ہی تو مضبوط و خوشحال ہوگا ساتھ ہی ساتھ مدارس کے نصاب میں آباؤ اجداد کی تاریخ کو شامل کریں تحریک آزادی میں مسلمانوں کا کیا کردار تھا اس سے قوم کو روشناس کرائیں تاکہ کل قوم کے کسی بھی فرد سے کوئی شخص کسی طرح کا سوال کرے تو وہ بلا جھجک سوالوں کا جواب دے سکے اور ساتھ ہی اب تہیہ کرلینا چاہئے کہ دیگر دھرم گروؤں کو ایک اسٹیج مدعو نہیں کرنا ہے اس لئے کہ یہ ایک نمائش کے سوا کچھ نہیں ہے اس سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے –
[email protected]
++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی