تحریر:-ہلال بخاری
شاید بے وقوف بننا بھی کچھ انسانوں کی ایک فطری کمزوری ہوتی ہے۔ دنیا کا مشرق ہو یا مغرب لوگ اکثر بے وقوف بنتے رہتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ زیرک لوگ سادہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے کہیں پر سائنس کا استعمال کرتے ہیں تو کہیں مزہب کا ۔انسان کبھی جان بوجھ کر دوسروں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اس کو بے وقوف بنایں۔
ایسی ہی ایک مثال ہمارے ملک کے اس علاقے کی ہے جہاں بابا دین لوگوں کا سب سے مشہور روحانی نام بن گیا تھا۔
اس کا اصل نام غلام دین بابا تھا مگر دھیرے دھیرے اس کا نام بھی اسی کی طرح ترقی کرتا گیا اور وہ سید بابا دین کہلایا۔ہمارے یہاں نام اکثر لوگوں کے پیسوں کو دیکھ کر ترقی کر جاتے ہیں۔ یہ بھی شاید ہمارا روحانی کرشمہ ہی ہے۔
اس علاقے کے لوگ اس کے بارے میں بہت بہت عقیدت رکھتے تھے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے بابا جی کو آسمان میں اُڈھتے ہوئے دیکھا ہے، کچھ کہتے تھے کہ کسی نے ان کو ببر شیر پر سوار دیکھا ہے ‘ کچھ کہتے تھے کہ وہ اپنے جن کو جو بھی حکم کرتا ہے جن فوراً اس پر عمل کرتا ہے۔
آہستہ آہستہ لوگوں کی یہ عقیدت بابا جی کے ساتھ بڑھتی رہی اور وہ دن بھی آیا جب لوگوں نے مانا کہ اس کا کچھ حصہ خدائی میں بھی ہے۔
اس بابا دین نے شہرت اور طاقت حاصل کرکے آخر کار ایک دن یہاں ایک مضبوت پارٹی بھی بنائی۔ اس پارٹی کا نام انہوں نے ” بابائی دین” رکھا تھا۔ اس پارٹی کے ذریعے اس بابا اور اس کے چیلوں کو باقی عوام پر مضبوت کنٹرول اور گرفت حاصل تھی۔ پارٹی کے خلاف کسی کی ہمت نہ تھی کہ کچھ بولے۔ اکثر پارٹیاں ہوتی اسی لئے ہیں کہ انفرادی سوچ اور بغاوت کو وقت پر ہی دبادیا جائے تاکہ وہ ایک خطرناک طاقت بنے نہ پائے۔
یہ پارٹی ترقی کرتے کرتے ایک مسلک بن گئی۔ لوگ اس سے جڑتے گئے اور کارواں بڑتا گیا۔لوگوں کو اکثر حکم دیا جاتا کہ وہ اس مسلک کے حق میں نعرے بلند کریں۔ وہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اکثر یہ نعرہ بلند کرتے :
” بابائی دین ہمارا آبائی دین۔”
باباجی یعنی بابا دین کو انکے کرشموں کی وجہ سے خاصی شہرت حاصل تھی۔
. لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے بہت سے نایاب چمتکار انجام دیے تھے ۔لوگوں میں ان کے چرچے تھے۔
کہا جاتا تھا کہ وہ لاعلاج بیماروں کو تندرست کرتے ہیں، کبھی وہ کسی کے دل کے اندر کے راز کو اپنی زبان سے بیان کرتے ، کبھی کسی کے گھر میں جاکر چھپائی گئی تعویز کو دریافت کرتے ۔لوگ یہ کرشمے سن کر ان کو اپنا پیشوا اور مسیحا سمجھتے تھے۔ اگر کسی کے من میں کوئی شک ہوتا تو وہ اور انکا مسلک بڑی مہارت سے ڈر کا استعمال کرتے۔
ایک دن ایک آدمی سے کچھ ان بن ہوئی تو بابا نے اس کو غصے سے کہا،
"تجھے میں کنکر بنا دوں گا”
پھر اپنے چیلوں کو حکم دیا،
"اسے میرے پاس لاو”
وہ بے چارہ ڈر کے مارے بہت بھاگا ۔بھاگتے بھاگتے ایک پہاڑی سے پھسل کر ایک کھائی میں گر گیا۔ ہاتھ ، پیر ٹوٹ گئے اور معزور بن گیا۔ڈر جس قسم کا بھی ہو پست ہمت اور بے بس کرکے انسان کو کھوکھلہ اور بے وقعت بنا دیتا ہے۔
بابا جی نے فخر سے لوگوں کو بتایا کہ کس طرح اس نے اس آدمی کو جو بغاوت پر اتر آیا تھا پتھر بنا ڈالا ۔
لوگ اس آدمی کو نفرت بھری نگاہوں سے تاکنے لگے جو معزور ہوا تھا ۔کوئی اس کی مدد نہ کرتا۔جب وہ کہتا کہ میں بابا جی کے چمتکار کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے ڈر کی وجہ سے اپاہج ہوا ہوں تو لوگ اسے سمجھنے کے بجائے اور زیادہ نفرت بھری نگاہوں سے گھورنے لگتے۔
اس گاوں میں ایک پرائمری اسکول تھا ۔ وہ اکثر بند رہتا تھا ۔ کیونکہ بابائی دین مسلک کا ماننا تھا کہ انگریزی تعلیم سب کچھ غلط سکھاتی ہے۔بابا جی کا عقیدہ تھا کہ زمین چپٹی ہے اور ساکن ہے مگر سائنس کہتی ہے کہ زمین گول ہے اور سورج کے گرد اور اپنے محور کے گرد گومتی ہے۔
ایک دن بابا جی نے اپنے دربار میں سب سے پوچھا ،” اگر زمین گوم رہی ہوتی تو کیا ہم گر نہ جاتے ۔یہ سائنس کیا پاگل پن کہتی ہے؟ ”
سب نے سوچا بابا جی کی بات تو سوآنے سچ ہے!
غرض اس مسلک نے آہستہ آہستہ یہ بات لوگوں کے ذہن میں ڈال دی کہ علم انسان کی ایک بیماری بن سکتا ہے اس لئے اس سے دور رہنے میں ہی بھلائی ہے۔
لیکن ایک روز ایک نوجوان، ذہین اور زیرک استاد کو حکومت نے اس علاقے کے اسکول میں تعنات کیا۔ یہ استاد جی اپنے کام میں بجا مہارت رکھتا تھا۔
یہ استاد جی پارٹیوں کی طرف زیادہ توجہ نہ دیتا تھا چاہے وہ بابائی دین قسم کا مسلک ہو یا اور کسی طرح کی پارٹی۔
اس کے اپنے خیال میں پیر مریدی اپنے آپ میں کوئی بری چیز نہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ روحانیت میں ہر شخص کسی نہ کسی طرح رہبروں کی تلاش میں رہتا ہے۔ان کی نظر میں پیر مریدی کا اصلی تعلق دنیا سے زیادہ عقبیٰ سے تھا۔
ان کا خیال تھا کہ پیر مریدی محض ایک روحانی صفر کے لئے ہے ۔ پیر یا مرید دونوں میں سے کسی کو بھی کوئی مادی غرض ہو تو پیر مریدی کا معیار خود بہ خود گر جاتا ہے۔اور گری ہوئی پیر مریدی سے اس کو کوئی الفت نہ تھی۔
جب اس استاد جی کا تبادلہ یہاں ہوا اور وہ اسکول کو کھولنے آیا تو بابائی دین کے کارکن اسے روکنے کی غرض سے بھی آئے تھے لیکن استاد جی نے انکو بتایا کہ وہ باباجی کے دوست کا بیٹا ہے اور ایک خط اپنے والد کا باباجی کے نام انکے حولے کر دیا۔
باباجی نے خط پڑھا تو اس نے حکم دیا کہ اسکول کو چلنے دیا جائے اور بچوں کو اسکول بیچ دیا جائے۔
بابادین کا خیال تھا کہ دوست کا بیٹا ماسٹر ہے تو کوئی بات ڈرنے کی نہیں۔
لیکن جب استاد جی کو یہاں آکے بابادین اور بابائی دین کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ بہت حیران ہوا کہ آج کے دور میں بھی لوگ اس آسانی کے ساتھ بے وقوف بنائے جاسکتے ہیں۔
جب وہ بچوں کو اگلے دن سے پڑھانے لگے تو اس نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کی بوسیدہ خیالوں نے کس طرح بچوں کے زہنوں پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ ان سے کوئی سوال پوچھتے ہیں تو یہ اپنے مسلک کی رٹی رٹائی باتوں سے جواب دیتے ہیں۔یہ سائنس پڑھنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ استاد نے بہت کوشش کی کہ بچوں کو متاثر کر پائے آخر کار وہ اس ہنر میں ماہر تھا۔دھیرے دھیرے بچوں پر اثر ثبت ہونے لگا تھا مگر اس سے پہلے کہ کوئی واضح پیش رفت نظر آتی علاقے کے لوگوں میں یہ بات پھہل گئی کہ استاد بچوں کو ورگلانے کی کوشش کرتا ہے۔پہلے بابائی جماعت کے کارکُن ان کو سمجھانے آئے کہ وہ اسکول چھوڑ کر چلے جایں لیکن جب بات نہ بنی تو ایک دن خود بابا دین حضرت بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد لے کر جو فلک شغاف نعرے بلند کرہےتھے ، اسکول کے بڑے گراونڈ میں وارد ہوئے۔
” بابائی دین ہمارا آبائی دین”
جب نعرے سن کر استاد جی ان کے نزدیک آئے تو بابا جی نے کہا
” تم کیوں ہمارے بچوں کو ورگلا رہے ہو ؟اگر تم میرے دوست کے بیٹے نہ ہوتے تو میں تم کو ابھی خاک میں ملا دیتا۔”
استاد نے یہ سن کر بڑے اطمینان سے جواب دیا،
” بابا دین مجھے آپکی ساری کارستانیوں کی خبر ہوچکی ہے۔ میں تو ان بچوں کو وہی سکھا رہا ہوں جو سیکھنا انکا حق ہے۔”
بابا دین نے غصے سے کہا، ” میں انکا حق خوب جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تم یہودیوں کے ایجنٹ ہو اسی لئے ہمارا مسلک اور مزہب بگاڈنے آئے ہو مگر میں اپنےدوست کی وفاداری کے وسیلے سے تمہیں بخش دیتا ہوں ۔ تم آج ہی ہمارا علاقہ چھوڑ کے چلے جاو۔”
استاد جی نے جواب دیا ” یہ سر زمین الله پاک کی ہے بابا دین ، نہ کسی بابے کی اور نہ کسی مسلک کی۔ آپ لوگ مجھے نکال کر اپنا ہی نقسان کرلو گے”
لوگ اب تک سن رہے تھے مگر اب ان سے رہا نہ گیا ۔ وہ پھر سے اور زور سے نعرے بلند کرنے لگے،
"بابائی دین ہمارا آبائی دین
یہودیوں کا ایجنٹ مرداباد”
کسی نے جوش میں آکر ہجوم میں سے بلند آواز میں کہا۔
” بابا دین یہ آپکے دوست کا بیٹا ہے تو کیا ہوا ۔ اس نے ہمارے مسلک پر حملہ بولا ہے ہم اسکو سنگ سار کریں گے۔ آپ اگے سے ہٹ جاو”
پھر سارے لوگوں نے چیخ کر اس ایک آواز کے حق میں زور سے اور ملکر کہا
” ضرور”
شور اس قسم کا تھا کہ بابا دین بھی چونک گیا۔ اس کو اب اندازہ ہوا کہ اس کے مسلک، بابائی دین کا قد اب بابا دین کی ذات سے بھی بلند ہوا ہے اور لوگ اب رکنے والے نہیں ہیں ۔اس لئے وہ خاموشی سے ایک طرف ہوا۔
لوگوں کو لگا کہ بابا دین نے بھی خاموش ہوکر مسلک کے لئے بلی دینا ضروری سمجھا ہے۔
اب ایک طرف لوگوں کا سیلاب سا ہجوم تھا اور دوسری طرف اکیلا استاد جی۔استاد جی کو اس بات کا پورا احساس ہوا کہ ابکے اسے حضرت عیساؑ اور سقراط کی طرح قربانی دینی پڑے گی ۔باگنے کا کوئی راستہ نہ تھا ۔لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھوں میں پتھر بھی اُٹھالئے تھے۔ اس ہجوم میں ہر ایک شخص جہاد کے جزبے سے اب شرابور تھا۔
ہر ایک کی تمنا تھی کہ اسی کا پتھر نشانے پے لگے تاکہ اسی کو دونوں عالموں کا اعزاز حاصل ہو۔
استاد جی کو احساس ہوا کہ اس کی زندگی کے اب کچھ پل ہی باقی رہ گئے ہیں۔ اس نے سوچا کیوں نہ انکو بھی سیکھانے میں صرف کردوں۔ کیونکہ اگر سکھانہ پیغمبری پیشہ ہے تو اس میں ریٹائیر ہونے کا کچھ مطلب نہیں۔ پیغمبر حضرات تا حیات سکھاتے رہے اور بہت سے اس عمل کی وجہ سے مارے بھی گئے۔
استاد جی نے بلند آواز میں کہا۔
” لوگو یہ جو تم پتھر مارنے جارہے مجھ سے زیادہ انکے نشانے پر آپکی اپنی عقلیں ہیں۔ میں آپکے مستقبل کی بربادی ابھی سے محسوس کررہا ہوں۔ آپکے بچے آپکا مستقبل ہیں انہیں سچ جان لینے کی آزادی کیوں نہیں دیتے ؟”
کسی نے ہجوم میں سے زور سے جواب دیا ،
"آج ہم تم کو بتایں گے کہ یہودیوں کا ایجنٹ ہونا اور ہمارے مسلک کو گالی دینا کیا ہوتا ہے ۔”
استاد جی نے جواب دیا،
نہ میں کسی کا ایجنٹ ہوں اور نہ میں نے کسی کو گالی دی ہے۔ میں آپکا خیر خواہ ہوں آپکے مستقبل کی فکر ہے مجھے”
ہجوم میں سے کسی نے یہ سن کر چیخ کر کہا، "تم موت کو سامنے دیکھ کر اب بہانے بنا رہے ہو۔ تمارے دل پے مہر لگی ہے اور موت کے علاوہ تمہارا کوئی علاج نہیں”
یہ سن کر استاد جی نے مسکرا کر کہا،
” باطل کے ساتھ جینے سے بہتر ہے کہ حق پر موت آجائے۔ ”
یہ مسکراہٹ اسکی آخری مسکراہٹ تھی اسکو دیکھ کر لوگوں کے دل حسد سے اور تنگ ہوئے اور ہر ایک نے نفرت کی انتہا میں اپنی ساری طاقت صرف کرکے پتھر برسائے۔
کچھ دیر کے بعد زمین کے ایک حصے پر استاد جی کی لہولہان لاش پڑی تھی۔علاقے کے سب لوگ یہ دیکھ کر فخر سے نعرے بلند کرنے لگے۔
"بابائی دین ہمارا آبائی دین۔”
بابادین اور اسکے چیلے یہ دیکھ کر جان گئے کہ اب انکا مسلک یہاں کے لوگوں کا واحد مزہب بن چکا ہے۔
ہلال بلاری
ہردوشورہ کنزر