بھارتی ڈوگرہ
پونچھ، جموں
رحیمن پانی راکھیے،بین پانی سب سون،پانی گئے نہ ابرے، موتی مانوش چون۔عظیم شاعر رحیم نے اس شعر کے ذریعے پانی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس کے بغیر زندگی کی افادیت اور تصور ممکن نہیں۔ درحقیقت زمین پر پانی کی دستیابی کی وجہ سے جانداروں کا وجود ہے۔ اس کے بغیر نہ انسانی زندگی ممکن ہے اور نہ ہی کسی دوسرے جاندار کا وجود۔ یہ جانداروں کی بنیادی ضرورت ہے۔ صاف لفظوں میں کہیں توپانی زندگی ہے۔ لیکن جہاں پانی نہ ہو وہاں زندگی کیسی ہو گی؟ اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سائنسدانوں سے لے کر ماہرین تک پانی کے مسئلے کے حوالے سے وارننگز دیرہے ہیں۔ مسلسل بتایا جا رہا ہے کہ اگر کسی ٹھوس اور مسلسل منصوبے پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہ کیا گیا تو جلد ہی ملک میں پانی کے لیے مسئلہ کھرا ہو سکتا ہے۔ملک کے کئی ایسے دیہی علاقے ہیں جہاں پینے کے صاف پانی کی دستیابی بہت محدود ہے۔ گاؤں والوں کو یا تو پانی کے واحد ذریعہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے یا پھر انہیں پینے اور دیگر روزمرہ کے کاموں کے لیے پانی تلاش کرنے کے لیے دور تک جانا پڑتا ہے۔ اس طرح کے مسائل صرف میدانی علاقوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ پہاڑی ریاستوں کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔
یوٹی جموں کے کٹھوعہ ضلع میں واقع تحصیل بلاور کے گاؤں جوڑن میں پانی کا ایسا مسئلہ سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ گاؤں میں پانی کے لیے صرف ایک کنواں ہے۔ جوگاؤں والوں کی روزمرہ کی ضروریات کے لیے کم پڑتی ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 20 سے 25 گھر ہیں جن کی کل آبادی 100 کے قریب ہے۔ پورے گاؤں کا انحصار ایک چھوٹے سے کنویں پر ہے۔ جہاں وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ حالانکہ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اس کا پانی بھی صاف نہیں ہے۔ لیکن قریب میں کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہی پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ خواتین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن کو گھریلو استعمال کے لیے پانی جمع کرنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ گاؤں کی ایک خاتون ربینہ بیگم کہتی ہیں کہ گاؤں میں ایک ہی کنواں ہے۔ ہم سب اپنے گھروں میں استعمال کے لیے اس سے پینے کا پانی لیتے ہیں۔ کوئی دوسرا ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے تمام خواتین اسی کنویں پر اپنے کپڑے بھی دھونے پر مجبور ہیں۔ایک اور خاتون مونی بیگم کا کہنا ہے کہ گاؤں میں واحد کنواں ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اسی کا استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ وہ اس سے پینے کے لیے پانی بھرتے ہیں اور وہیں بیٹھ کر کپڑے بھی دھوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کنویں کا پانی گندا اورآلودہ ہو چکا ہے۔ لیکن کوئی دوسرا آپشن نہ ہونے کی وجہ سے ہم وہی پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی بار گھر کی عورتیں گھر کے بیمار فرد کے کپڑے بھی اسی کنویں پر دھوتی ہیں۔ اسے دیکھ کر پانی پینے میں دل نہیں لگتا لیکن پانی کا کوئی دوسرا کنواں یا ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم وہی پانی پینے پر مجبور ہیں۔ اس گندے اور آلودہ پانی کے استعمال سے کئی بار بیماریاں لگنے کا خطرہ رہتا ہے۔ لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی گاؤں والے بے بس ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر حکومت اور انتظامیہ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو گاؤں والوں کو اپنی صحت کے ساتھ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔جس کا ذمہ دار انتظامہ ہوگا۔
مونی بیگم کے مطابق یہ کنواں گرمیوں میں سوکھ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنہیں پانی کے لیے 2 کلومیٹر دور پنجتیرتھی جانا پڑتا ہے۔ یہ بہت مشکل وقت ہوتا ہے۔ گرمیوں میں دن میں دو بار اتنی دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے جہاں خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں لڑکیوں کو بھی سکول چھوڑ کر پانی کے لیے جانا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، جنہیں گھر میں اکیلا چھوڑ کر بھی پانی کے لیے بھٹکنا پڑتا ہے۔ گاؤں کے زیادہ تر مرد دن کے وقت اپنے کام پرچلے جاتے ہیں۔ ایسے میں کبھی ان بچوں کو اپنے ساتھ لے جانا، تو کبھی گھر میں اکیلا چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اس سلسلے میں گاؤں جوڑن کے سماجی کارکن کاکو دین کا کہنا ہے کہ انہوں نے پانی کے مسئلے پر متعدد ویڈیوز بنا کر یوٹیوب اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ڈال دی ہے تاکہ انتظامیہ یا متعلقہ محکمہ اس مسئلے کو حل کر ے۔ لیکن آج تک اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ مقامی انتظامیہ کی بے حسی کے باعث اس گاؤں کے لوگ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔گاؤں جوڑن کے پنچ محمد گنی کا کہنا ہے کہ یہاں پانی کی پائپ لائن تک نہیں بچھائی گئی تو محکمہ جل شکتی کا پانی کہاں سے آئے گا؟وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں میں نے کئی بار جے ای ای سے اپیل بھی کی، انہوں نے بھی ہر بار صرف یہ یقین دلایا کہ جلد ہی گاؤں جوڑن میں پانی کی پائپ لائن بچھائی جائے گی، لیکن آج تک کچھ نہیں ہوا۔ بیک ٹو ولیج پروگرام کے دوران بھی ہم نے اس مسئلہ کو عہدیداروں کے سامنے سنجیدگی سے اٹھایا ہے لیکن انتظامی بے حسی کی وجہ سے آج تک اس گاؤں میں پانی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ محمد غنی کا کہنا ہے کہ پنچ ہونے کے ناطے میں نے گاؤں کی ترقی سے متعلق منصوبوں اور میٹنگوں میں بھی گاؤں میں پانی کے کنکشن کا مسئلہ رکھا لیکن آج تک اس منصوبے کو منظوری نہیں دی گئی۔ اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اگر اس گاؤں میں پانی کا مسئلہ جلد حل نہ کیا گیا تو آنے والے موسم گرما میں گاؤں والوں کو پانی کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مرکزی حکومت کی وزارت جل شکتی کی ویب سائٹ کے مطابق، سال 2024 تک ملک کے ہر دیہی گھر میں نلکے کے ذریعے مناسب اور باقاعدہ صاف پانی کی فراہمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق، اب تک (فروری 2023 تک) ملک میں کل 19,39,40,804 گھروں کو نل کا پانی فراہم کیا جا چکا ہے۔ اسکیم کے آغاز کے بعد سے، یہ ہدف 49 فیصد سے زیادہ گھرانوں میں حاصل کیا جا چکا ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں 56.97 فیصد گھروں کو نل کنکشن سے جوڑا گیا ہے۔ حکومت کے اس اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اہداف بروقت حاصل کر لیے جائیں گے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گاؤں جوڑن میں یہ اسکیم کب تک پہنچے گی؟ کیا تب تک گاؤں والوں کو اسی طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جائے؟ کیا منصوبہ آنے تک انتظامیہ اور متعلقہ محکمے کے پاس کوئی متبادل انتظام نہیں ہے، تاکہ گاؤں والے آلودہ پانی پینے پر مجبور نہ ہوں اور گرمیوں میں انہیں پیاسا نہ رہنا پڑے؟ (چرخہ فیچر)