یہ میڑم کیوی کی کہانی نہیں ہے جس نے مسٹر کیوری کے ساتھ ملکر ریڑیم دریافت کیا تھا۔ مگر جس کی ہے وہ بھی شاید اس میڑم سے بہتر بن جاتی اگر موت اسکی رفتار کو نہ روکتی ۔ مگر زندگی شاید اپنے گزرنے میں بھی وحدت رکھتی ہے۔ یعنی جس طرح سے گزرتی ہے اس کی بس ایک یہی راہ ہوتی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ کاش ایسا ہوتا تو زندگی اس طرح ہوتی۔ مگر جو ہوتا ہے بس وہی حقیقت میں ہوتا ہے۔ جو نہیں ہوتا وہ بس خیال میں ہوتا ہے۔اور جو صرف خیال میں ہو اسے زندگی نہیں کہہ سکتے ہیں۔
اچھا ، اس لڑکی کا نام اصل میں کیوری نہیں تھا۔ یہ نام میں نے ہی اس کو دیا تھا جب وہ اسکول میں میرے پاس پڑھتی تھی۔ اس کی زہانت اور متانت دیکھ کر میں اس سے خاصا متاثر تھا۔ اکثر ایسا نہیں ہوتا کہ استاد کسی طالب علم سے اس قدر متاثر ہو۔ مگر جو طالب علم واقعی جینیس ہوتا ہے وہ سب کو متاثر کرتا ہے۔ اس ننھی سی لڑکی کا نام میں نے اس کے سائنسی زہن کی وجہ سے ایسا رکھا تھا۔ انگریزی زبان میں Q سے شروع ہونے والا قیوری لفظ بھی ہے جس کے معنی ہیں ” سوال” اور جس کو میں کیوری کہتا تھا وہ سوال بہت کرتی تھی۔
میرا خیال ہے کہ ہر معاملے پر سوال ابھر کے آنا ایک عمدہ زہن کی نشانی ہے۔ جس زہن میں جتنے سوال جنم لیتے ہیں وہ زہن اتنا ہی عظیم ہوتا ہے۔
پھر یہ کیوری نام انگریزی کے ” کیوریس” لفظ سے بھی ملتا ہے۔ جس میں جاننے کا جزبہ بہت ہوتا ہے اسے انگریزی میں ” کیوریس” کہتے ہیں۔
کیوری میں یہ تمام خوبیاں تھیں۔ وہ میڑم کیوری کی طرح سانسی زہن کی مالک تھی، ہر بات پر صحیع سوال پوچھنے کا اسکو فطری ہنر تھا۔حالانکہ اہل دانش کا خیال ہے کہ ہر بچے میں فطری طور پر یہ ہنر موجود ہوتا ہے۔ مگر پھر اسے دنیا کسی نہ کسی انداز میں دبا دیتی ہے۔ کیوری میں یہ ہنر کیسے زندہ رہا ، یہ میں نہیں جانتا۔
تیسری خوبی جس کی وجہ سے میں اس ننھی جان کو کیوری پکارتا تھا اس کا علم حاصل کرنے کا بے انتہا جزبہ تھا۔
اس کے آنے سے جیسے سارا کلاس، جس میں وہ تھی ، زندہ اور غیر معمولی طور پر متحرک نظر آتا تھا۔
اس سے پہلے میرے کلاس کی مثال بھی کسی عام کلاس کی طرح تھی۔ میں پڑھا رہا ہوں اور بچے جیسے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ اکثر یہ بھی معلوم نہیں رہتا کہ وہ سن بھی رہے ہیں یا نہیں۔پھر میں چک کرنے کے لئے سوال پوچھتا ہوں تو کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس سے سوال پوچھا گیا ہے گویا اسکو خواب غفلت سے بیدار کیا گیا ہے۔ اکثر طلاب کو جواب دینا بھی نہیں آتا ، سوال کرنا تو دور کی بات ہے۔
لیکن اس بچی کے آنے سے جیسے سب نے اصلی تعلیم کا ہنر سیکھ لیا تھا۔سب کلاس میں بیدار اور سیکھنے کے لئے تیار نظر آتے تھے۔کوفت اور تھکن جیسے سب بیزار ہوگئی تھی اور قوت اور حرکت جیسے سب طلاب پر فدا ہورہی تھی۔
اس کے سوال کبھی عام سائنسی انداز کے ہوتے ۔وہ کبھی پوچھتی کہ،
” پتے کیوں سبز ہوتے ہیں؟”
کبھی وہ سوال کرتی،
آسمان کا رنگ نیلا ہی کیوں ہے پیلا کیوں نہیں ؟
کبھی کہتی ،
” آپ مجھے سمجھاو کہ سورج ہر روز ہمارے یہاں مشرق سے ہی کیوں اگتا ہے ؟”
یا پوچھتی ” اگر ہم پانی کے باہر سانس لے سکتے ہیں تو مچھلیوں کا دم کیوں پانی سے باہر آکر گھٹنے لگتا ہے ؟
میں جانتا تھا کہ اس ننھے زہن کے ایسے سوال اسے فردا میں بہت آگے لے جایں گے۔ اگر یہ ایسے ہی سوچتی رہی تو یہ ایک دن عظیم سوالات کے جواب ڈونڈنے لگے گی اور اس سے صرف اسکو یا اس کے علاقے کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا فایدہ ہوگا۔
ہماری ترقی اور بہتری کا راز بڑے سوالات کے ساتھ ہی منسلک ہے۔
کبھی اس ننھی بچی کے سوالات فلسفی انداز کے بھی ہوتے تھے۔
ایک دن جب میں انسانیت کی یکسانیت پر بات کر رہا تھا تو اس نے پوچھا ،
"اگر ہم سب انسان یکساں ہیں تو پھر مغرب والے ہم کو ایسا کیوں کہتے ہیں کہ ساری جدید ایجادات ہماری ہیں ۔اور مشرق میں لوگ کیوں اکثر ایجادات کو اپنے اپنے مذاہب سے جوڈنے کی کوشش کرتے ہیں ؟”
لیکن ، اسکا آخری سوال میں شاید کبھی نہیں بھول پاوں گا ۔
اس نے آخری بار کلاس میں بیٹھ کر پوچھا تھا ، ” سر اگر موت اٹل ہے تو سائنس داں کیوں اس کا علاج تلاش کر رہے ہیں ؟
اور کیا یہ اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں ؟
یہ سوال شاید اس لئے اس نے نہ پوچھا تھا کہ اسکو اپنے موت کی خبر تھی بلکہ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ عرصہ دراز تک بیمار رہنے کے بعد وہ لمبے وقفے کے بعد اسکول ائی تھی اور وہ بیماری کی وجہ سے زہنی کوفت بھی محسوس کر رہی تھی۔
میں نے ہر سوال کی طرح اس سوال کا جواب بھی اپنی دانشت کے مطابق دیا تھا۔
” سانس دانوں کا یہی کام ہے کہ ہر مشکل کا علاج تلاش کریں۔ باقی اگر اللہ کی مرضی نہ ہوگی تو سائنس دان کہاں سے موت کا علاج کر پایں گے۔ کوشش کرنا انکا فرض ہے۔
اس وقت مجھے اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ یہ کیوری کے لئے میرا آخری جواب ہوگا۔ یہ اندازہ نہ تھا کہ جس موت کے بارے میں اس نے آخری سوال کیا تھا وہ اتنی جلد اسے اپنی آغوش میں لے کر اسکے سوالات کو ایک ہی جواب سے ہمشہ کے لئے خاموش کر دے گی۔
اگلے ہی دن صبح اسکے کی ناگہاں موت کی خبر آئی ۔ اگر چہ وہ لمبھے عرصے سے بیمار تھی مگر کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ اسکی آخری بیماری ہوگی۔ سب کو صدمہ ہوا ۔ ایک ننھی سی اور پیاری سی جان کے تلف ہونے کا دکھ کس کو نہ ہوگا ؟
اس کے والدین کے زار زار رونے کا واقعہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔
اگرچہ وقت کی یہ بھی ایک خوبی ہے کہ یہ ہر غم کو اگر مٹا نہ پائے تو کم سے کم اسکی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ مگر کسی عظیم انسان کی کمی صدیوں بعد بھی پوری نہیں ہوتی۔
میں آج سالوں بعد بھی اس کی کمی محسوس کرتا ہوں۔ اس کے جانے کے بعد نہ وہ سوال رہے ، نہ آج تک کسی میں ویسا سائنسی زہن پایا اور نہ کسی میں علم کے لِئے ویسا جزبہ دکھائی دیا۔
آج وہی میرا پڑھانا ہے اور طلاب کا پڑھنا ہے ۔بیچ میں وہ زندہ دلی سے علم کی ترقی کا رجحان جیسے پھر سے تھم گیا ہے اور اسکو پھر کسی کیوری کی تلاش ہے۔
ہلال بخاری
ساکنہ : ہردوشورہ کنزر