خواجہ یوسف جمیل
منڈی، پونچھ
کسی بھی قوم کی ترقی اور تقدیر کی باگڈور اسکے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور نوجوان ہی یہ طے کرتے ہیں کہ ملک کی تقدیر کس کے ہاتھ میں تھمائی ہے۔ ماضی میں نوجوانوں نے اپنی قابلیت کے لوہے منوائے ہیں۔ وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی جوانوں نے اقوام کو تاریکی سے نکال کر روشن مستقبل عنائت کیا۔لیکن دور حاضر میں نوجوان پستی، بے بسی اور لاچارگی سے دوچار ہیں۔ قدم قدم پر تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ جہاں سے آج کا نوجوان بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں سے اسناد حاصل کرنے کے بعد اس امید میں ہوتے ہیں کہ مختلف شعباجات میں اعلی عہدوں پر فائز ہوں گے۔لیکن جب یہ نوجوان اپنی اسناد حاصل کرکے واپس لوٹتے ہیں تو انہیں نوکری حاصل کرنے کے لئے کئی دفاتر اور تعلیمی اداروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ان نوجوانوں کو در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں لیکن انہیں مایوسی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔
گزشتہ چند سالوں سے بے روزگاری میں اضافہ بتریج اضافہ ہوتا جارہا تھا لیکن عالمی وبا کرونا وائرس نے بے دوزگاری کی اس شرح میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ جہاں مزدور طبقہ سے لیکر اعلی ملازمین تک کو اپنی روزگار سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔اب جب کہ زندگی نے دوبارہ سے رفتار پکڑی ہے لیکن نوجوان ہنوز بے روزگاری کے دلدل سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق گذشتہ سال مئی میں ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 7.1 فیصد رہی۔ زندہ رہنے کے لئے انسان کو دووقت کی روٹی درکار ہے۔جن نوجوانوں کے تعلق غریب خاندانوں سے ہے۔ انکے والدین کی نظریں کئی سال تک اپنے بچوں کی کامیابی پر ٹکی رہتی ہیں کہ کہ کب وہ سورج طلوع ہوگا جو اس گھر میں نوکری کا خوشخبری لائے گا۔
پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی نوجوان بے روزگاری سے دوچار ہیں۔ضلع پونچھ کے گاؤں بنوت کے رہائشی نوجوان محمد اشفاق، عمر ۹۲ سال کہتے ہیں کہ ”بچپن میں میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ ہمارے گھر میں آمدنی کا ذریعہ میرا بڑا بھائی ہے جس نے بمشکل ابھی ڈرایؤری سیکھی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے اس مشکل دور میں اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔میں نے ”ایم اے“ اور ”بی ایڈ“ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ مجھے امید تھی کہ میں نوکری حاصل کرکے اپنا اور اپنے گھر کے اہل خانہ کا پیٹ بھروں گا۔ مجھے نوکری نہیں ملی اور میں اب اپنے گھر سے ہزار کلومیٹر کی دوری پر لداخ میں جاکر مزدوری کرتا ہوں اور بطور پینٹر کام کرتا ہوں۔ میں بمشکل اپنے گھر کے اخراجات چلاتا ہوں۔
“ تحصیل منڈی کے بلاک لورن سے تعلق رکھنے والے نعیم احمد تانترے،عمر ۸۲ سال کہتے ہیں کہ ”میں نے بارہوں جماعت کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد میڈیکل اسیسٹنٹ کے لئے فارم بھرا۔ جہاں میرا سلیکشن بھی ہوگیا۔ میں نے میڈیکل کالج جموں کے تحت این ایم ٹی اسکول (ضلع ہسپتال) پونچھ سے دو سال کا ڈیپلومہ (فارمیسی) مکمل کیا۔ جس کے بعد مجھے یہ امید تھی کہ میں اپنے ڈپلومہ کی رجیسٹریشن جموں کشمیر فارمیسی کونسل میں کروا کر اپنا کاروبار شروع کرونگا۔ لیکن دفعہ ۰۷۳ ٹوٹنے کے بعد ریاست کو یو ٹی کا درجہ ملنے کی وجہ سے قوانین میں تبدیلی آئی اور اب ہمیں اس کونسل کے تحت رجیسٹریشن کروانے کی اجاذت نہیں ہے۔ اس رجیسٹریشن کے بند ہونے کے بعد ریاست کے ۰۰۰۵۲ ہزار طلبہ سڑکوں پر آگئے اور گزشتہ تین سالوں سے یہ بے روزگاری کی وجہ سے دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔“
بڑھتی مہنگائی سے پریشان اور تنگ دستی کی وجہ سے دوچار یہ نوجوان ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی نوجوان اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے مختلف قسم کے غیر قانونی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ زندگی گزارنے کے لئے انسان کو مالی طور پر مضبوط ہونا پڑتا ہے اور پیسہ کمانے کے لئے روزگار کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔جموں شہر سے تعلق رکھنے والے ’کلبھو شن‘ کہتے ہیں کہ ”میں نے ایم بی اے کیا ہے۔صند حاصل کرنے کے بعد میں نے پرائیوٹ نوکری شروع کی لیکن میرے اخراجات اس میں پورے نہیں ہوسکتے تھے تو میں نے ’پڑھے لکھئے چائے والے‘ کے نام سے چائے کا ڈھابہ کھولا ہے۔ میں نے اپنا اور اپنے والدین کا پیٹ پالنے کے لئے یہ کام شروع کیا ہے۔نوجوان طبقہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بے یار و مددگار نظر آتا ہے۔ ملک میں بھڑتی مہنگائی کے ساتھ ساتھ روزگار کی قلت ہونے کی وجہ سے نوجوان طبقہ مایوسی، بے بسی اور لاچارگی کا شکار ہوچکا ہے۔
اگر تمام واردات کو نسل کشی کا لقب دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان وقت پر شادی نہیں کرپاتے اور آج ہر شخص کی نظر پڑھے لکھے باروزگار نواجوان پر ہے لوگوں کا یہ معمول بن چکا ہیکہ اسی لڑکے سے اپنی بیٹی کی شادی کروائی جائے جو باروزگار ہو۔ جہاں لڑکے مایوسی کا شکار ہیں وہیں لڑکیاں بھی اعلی تعلیمی اسناد حاصل کرنے کے بعد اپنے گھروں میں بے روز گار بیٹھی ہیں۔ نوجوانوں نے مرکزی حکومت سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں ان کی تعلیم کے مطابق روزگار فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنا مستقبل سنوار سکیں۔ (چرخہ فیچرس)