بابر نفیس
ڈوڈہ، جموں
2018کی ایک سروے کے مطابق جموں و کشمیر میں 0.9 سے 0.7 فیصدافراد دیویانگ (معذور) کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔جموں و کشمیر میں سینکڑوں نوجوان کسی نہ کسی طرح معزور ہیں۔اگرچہ بات کم سن بچوں کی کریں تو شاید تعداد نوجوان معذوروں سے کم نہیں ہوگی۔ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں کثیر تعداد پولیو کے مریض پائے جاتے ہیں۔جبکہ محکمہ طبی نظام کی جانب سے کئی طرح کی دواییاں دستیاب کی جاتی ہیں۔سروے کے مطابق معذوروں کی تعداد میں کوئی بھی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔معذوروں میں بڑی تعداد پاؤں سے معذورلوگوں کی ہے۔جن کے پاؤں نقل و حرکت نہیں کر سکتے ہیں۔ایسے افراد کو کئی مشکلوں کا سامنا رہتا ہے۔خیر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا معزور طبقہ کے لوگوں کو تعلیم سے روشناس کیا جاتا ہے یا نہیں؟لیکن اکثر و بیشتر یہی پایا گیا کہ معذور طبقہ کے لوگ اپنی تعلیم سے بھی محروم رہتے ہیں۔کیونکہ اسکول دور رہنے کی وجہ سے یہ اپنی تعلیم کو انجام نہیں دے پاتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ معذور طبقہ کے بچے عرصہ دراز سے تعلیم حاصل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ لیکن انہیں کسی بھی طرح کی تعلیم حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ جس سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اگر یہ معذور لڑکیاں ہیں تو مشکل زیادہ ہو جاتی ہے۔نہ صرف ان بچیوں کو بلکہ ان کے والدین کو بھی انہیں تعلیم دلانے میں مشکل پیش آتی ہے۔
اس سلسلے میں دو لڑکیوں کے معذور والد احمد خان کہتے ہیں کہ میری دو لڑکیاں معذور ہیں۔ جن میں ایک کا نام الفت اور دوسری کا نام قمر فاطمہ ہے۔الفت کی عمر چودہ سال ہے جبکہ کمر فاطمہ کی عمر بارہ سال ہے۔ اس عمر میں الفت آٹھویں جماعت میں ہو نی چاہیے تھی جبکہ کمر فاطمہ کم سے کم چھٹی جماعت میں ہوتی۔ لیکن کم احمد خان نے افسردہ الفاظ میں بتایا کہ ہم غریبوں کے بچوں کے حق میں شاید تعلیم نہیں ہے۔ اگرچہ ان بچوں کو تعلیم دی جاتی تو شاید ان کا مستقبل بھی روشن ہوتا۔ کیونکہ تعلیم انسان کو با غیور کر دیتا ہے اور ایک معذور کو معذور سوچ سے آزاد کر دیتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مجھے دو سال ان بچوں کوا سکول بھیجنے میں کوئی دشواری نہیں آئی لیکن جب بچییاں بڑی ہوگئی تو مجھے بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکول دور ہونے کی وجہ سے میں بھی انہیں تعلیم دلانے سے مجبور تھا۔ اب میں انہیں گھر میں ہی کچھ تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پریشانیاں بے بسی بے کسی غریب کے لئے ہی ہے کیونکہ سرکار کی جانب سے ابھی تک انہیں کسی بھی طرح کا کوئی نظام فراہم نہیں کیا گیا۔جس سے انہیں چلنے میں آسانی فراہم ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کھڑے رہنے کے لئے میں نے خود اپنے مالی رقم میں سے کچھ لاٹھیاں وغیرہ لائے ہیں جن کی مدد سے دونوں لڑکیاں باہر نکل سکتی ہیں۔اس دوران میں بھی ان کے ساتھ میں رہتا ہوں۔انہوں نے سرکار سے اپیل کی کہ وہ ان کی مدد کرے کیونکہ انہیں بہت ساری امیدیں محکمہ طبی سہولیات سے ہیں۔اس سلسلے میں سماجی کارکن دانش ملک کہتے ہیں کہ یوٹی جموں و کشمیر میں بہت سارے معذور طبقہ کے لوگ رہتے ہیں۔جنہیں تعلیم حاصل کرنے میں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرانی چاہئے تاکہ وہ خود کفیل بن سکیں۔حالانکہ مرکز، ریاست اور تمام یوٹی میں معذور افراد کے لئے بہت سہولیات فراہم کرائی جاتی ہے، انہیں ایڈمیشن اور نوکری میں ریزرویشن بھی دی جاتی ہے، لیکن ملک کے دوردراز کے علاقوں کے معذور ان کا فائدہ حاصل کرنے سے صرف اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کیوں کہ انہیں اس کی معلومات نہیں ہوتی ہے۔ نہ ہی سرکاری افسران یا ملازم انہیں اس کی جانکاریاں فراہم کراتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کیا ایک معذور انسان آج کے اس جدید دور میں ایک اچھی نوکری بھی کر سکتا ہے؟ جبکہ بہت سارے کام گھر سے ہی آن لائن انجام دیے جاتے ہیں اور آج کے دور میں یہ سب کام کرنا آسان سی بات ہو گئی ہے۔اگرچہ اس طرح کا ماحول تیار کیا جائے تو شاید معذور لوگوں کو بے روزگاری کا بھی احساس نہیں ہوگا اور انہیں مالی پریشانیاں بھی نہیں اٹھانی پڑیگی۔
اس سلسلے میں جب 32 سالہ نوجوان پون کمار جو ضلع ڈوڈا کی ایک پہاڑی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک پاؤں سے معذور ہیں۔ انہوں نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے جب انہیں اس تعلیم کو لے کر سوال کیا کہ کیا معذور بچے کسی بھی اسکول میں اپنی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس میں کوئی بھی شرت نہیں کہ ایک اسکول میں صرف تندرست بچے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی اسکول انہیں ایڈمیشن دینے سے منع نہیں کر سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا والدین اپنے معذور بچوں کو تعلیم حاصل کروانا چاہتے ہیں یا نہیں؟انہوں نے بتایا کہ اکثر و بیشتر یہ پایا جاتا ہے کہ معذور بچوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات بلکل بھی درست نہیں ہے۔ایک معذور بچے کا ذہن ایک تندرست بچے کے ذہن کی طرح ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والدین نے کافی زیادہ مشکلات سے مجھے تعلیم دلائیں اور مجھے بھی محنت ومشقت کرنی پڑی۔ لیکن میں نے ہار نہیں مانی۔میں یہ پیغام اپنے معذور بھائیوں اور بہنوں تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ تعلیم ضرورحاصل کریں کیونکہ یہی آپ کو خود کفیل بنا دسکتا ہے۔
علاوہ ازیں جب ہم نے ایک معذور طالب علم محمد اکرم جو پولیو کی بیماری میں ملوث ہیں، ان کے والد سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ محمد اکرم بہت ہی ذہین طالب علم ہے۔اس نے بارہویں جماعت میں ستر فیصد نمبرسے کامیابی حاصل کی ہے۔انہوں نے کہا کہ معذور بچوں کو تعلیم دلانا بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔اگر والدین تھوڑی سی تکلیف اٹھائیں تو ان کے معذور بچے عمر بھر کسی پر بھی انحصار نہیں رہینگے۔پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن نشاط قاضی کہتی ہیں کہ ضلع ڈوڈہ کے بہت سارے علاقہ جات ایسے ہیں جہاں پر سینکڑوں کی تعداد میں معذور ہیں۔مگران کے لیے ابھی تک کسی بھی طرح کا کوئی نظام قائم نہیں کیا گیا ہے جس سے انہیں گھر بیٹھے علاج و معالجہ کے ساتھ ساتھ تعلیم دینے کا بندوبست کیا گیا ہوں۔انہوں نے کہا کہ اس بات کا اندازہ صرف پہاڑی علاقوں کے لوگ ہی لگا سکتے ہیں جنہیں سڑک جیسی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ جب پہاڑی علاقوں میں ایک معذور بیمار ہوتا ہے تو اسے ڈاکٹر کے پاس کس طرح لے جایا جاتا ہے وہ اندازہ بہتر کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ کے سامنے بھی کئی مرتبہ اس سلسلے میں بات رکھی گئی لیکن کوئی بھی غور و فکر نہیں ہوئی۔ انہوں نے امید جتائی کہ آنے والے وقت میں شاید اس پر کوئی بات چیت ہو۔
اس سلسلے میں زونل ایجوکیشن آفیسرڈوڈہ نے بتایا کہ ضلع ڈوڈہ کے بہت سے اسکولوں میں معذور بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ معذور بچوں کو وردی اور کتابیں مفت دستیاب کی جائیں جبکہ ہماری طرف سے کی معذور بچوں کو دوائی بھی دستیاب کی جاتی ہیں۔لیکن ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا جو بچے گھروں میں ہیں ان کے لئے تعلیمی نظام کا کیا بندوبست کیا گیا ہے؟تو انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ہم لکھیں گے اور امید کریں گے کہ ہمارے ذمہ داران اس پر ضرور عمل ظاہر کریں۔اس سلسلے میں چیف میڈیکل افسر، ڈوڈہ ڈاکٹر یعقوب کہتے ہیں کہ بہت سارے پروگرام کیے جاتے ہیں جس میں معذوروں کو چلنے کے لئے کچھ امدادی سامان مہیا کیا جا تا ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ پہاڑی علاقوں میں معذور طبقہ کے لوگوں کو یہ سامان مہیا نہیں ہوتا تو انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں ہم پہاڑی علاقہ کے لوگوں کو پہلے ہی بلائیں گے اور انہیں یہ سامان مہیا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ایک ٹیم تشکیل دی جائے گی جو ایک سروے کرے گی۔جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کے پہاڑی علاقوں میں کس کس گاؤں میں کتنے معذور ہیں اور آنے والے وقت میں انہیں یہ سامان ان کے گھر پہنچا دیا جائے گا۔
بالآخر اس سلسلے میں جب ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈاوشیش پال مہاجن سے جب بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ ضلع ڈوڈہ سے تعلق رکھنے والے ہرمعذور کو مہینہ ایک ہزار روپے امداد کے طور پر پینشن فراہم کی جاتی ہے۔انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ میری نوٹس میں ابھی تک یہ بات نہیں تھی۔ اب میں اس پر ضرور غور کروں گا اور ایک میٹنگ بھی منعقد کروں گا۔انہوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ آنے والے کچھ دنوں میں چیف میڈیکل افسر ڈوڈا سے اس پر خاص بات کی جائے گی اور ضروری ادویات کے کیمپ کا بھی آغاز کیاجائے گا۔لیکن جس طرح سے ملک کے دوردراز علاقوں میں معذور وں کے ساتھ بھیدبھاؤ کیا جاتا ہے اس سے یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا معذوروں کو تعلیم یا دیگر سہولیات حاصل کرنے کا حق نہیں ہے؟ (چرخہ فیچرس)