چند روز سے وادی کشمیر میں تمام سکول کھل گئے اور امتحانات کی تیاریوں کا سلسلہ یاتو جاری ہے یا کچھ کلاسوں کے امتحانات شروع بھی ہوچکے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکول بھی کھل گئے ہیں اور اگلے چند روزمیں خطہ لداخ کے ضلع کر گل اور لیہہ میں بھی سکول کھولے جائیں گے۔ لمبی سرمائی تعطیلات کے بعد سکول کھلنے سے رونق لوٹ آئی ہے ۔ کیونکہ سکول کھلنے کے ساتھ ہی گھروں میں چہل پہل ہوتی ہے ، بچے سویرے سکول کے لئے تیارکئے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں والدین چھوٹے بچوں کو لیکر سکول کا رخ کرتے دیکھے جاتے ہیں اور کہیں تو پرائیویٹ گاڑیاں اور سکولوں کی گاڑیاں بچوں کو لینے اور چھوڑنے کے لئے آتی جاتی ہے ۔ اس عمل سے ساراماحول بدل گیا ہے اور مجموعی طور خوشحال مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ چند ایسے مناظر بھی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہے ہیں جن سے سبھی ذی ہوش لوگوں کو دکھ ہوتاہے۔ سکولی فیس کو لیکر تنازعات کھڑے ہوگئے ہیں۔کہیں کہیں سکولوں نے فیس میںاز خود اضافہ کردیاہے اور کچھ سکولوںنے نئے نئے فیس وصولنے شروع کردئے ہیںجس کے خلاف عوامی حلقوں خصوصاً متاثرہ والدین میں سخت مایوسی اور ناراضگی پائی جاتی ہے۔ جبکہ کچھ سکول ایک معقول اور مناسب فیس مانگ رہے ہیں جو والدین اداکرنے سے انکار کررہے ہیں جس پر سکول مالکان بھی انکے خلاف ہر ممکن کارروائیاں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں میں تنائو اور تنازعہ کا ماحول دیکھنے کو مل رہاہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک بہت ہی چالباز شخص نے سکولی فیس میں چالاکی سے اضافہ کرنے کی ایک کوشش کی اوراپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ بیان جاری کیا کہ وہ پرائیویٹ سکولوں کے منتظمین سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ دس فیصد سے زیادہ فیس میں اضافہ نہ کریں کیونکہ والدین کی حالت اتنی بہتر نہیں ہے کہ وہ دس فیصدی سے زیادہ فیس کا اضافہ برداشت کرسکتے ہیں۔ حالانکہ حق تو یہ ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ سکول نے فیس میں اس طرح کا اضافہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی فیس میں از خود اضافہ کر سکتاہے کیونکہ سپریم کو رٹ کی ہدایت پر جموں وکشمیر یونین ٹیریٹری میں فی فکزیشن اینڈ ریگولیشنکمیٹی کا قیام عمل میں لایاگیا ہے جس کی سربراہی ایک ہائی کورٹ جج کو سونپی جاتی ہے اور وہی فیس میں اضافہ کی درخواستوں پر فیصلہ صادرکرتے ہیں۔ اسی کمیٹی کو فیس میں اضافہ کرنے کا قانونی اختیار حاصل ہے ۔ یہ کمیٹی سکولوں کا ریکارڈ دیکھ کر ہی فیس میںاضافہ کرنے یا نہ کرنے کے حکمنامے جاری کرتی ہے لیکن فی الوقت گزشتہ چار ماہ سے اس کمیٹی کے سربراہ کی کرسی خالی پڑی ہے اسلئے سکولی فیس پرکسی بھی فرد یا افراد کومن گھڑت بیانات جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ فی فکزیشن اینڈ ریگولیشن کمیٹی کے سربراہ نے گذشتہ دو سال میں قریب 90فیصد سکولوں کا فیس تین سال کے لئے ریگولیٹ کرلیا ہے جنہو ںنے کمیٹی کو فیس کے حوالے سے رجوع کیا تھا۔ رجوع کرنے والوں میں وادی اور جموں کے سارے نامی گرامی سکول شامل ہیںاسلئے بہت سارے سکولوں کا فیس پہلے ہی مقرر کیا جاچکاہے او ر اس حوالے سے کوئی زیادہ بحران نہیں تھا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن سکولوں نے اب لیٹ فیس ، رفنڈیبل فیس یا ایڈمیشن فیس کے نام پر لوگوں سے رقومات بٹورنے کاسلسلہ شروع کیا ہے وہ ایک غیر قانونی عمل ہے جس کے خلاف متعلقہ حکام کارروائی کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے والدین کا غصہ حق بجانب ہے اور یہ سب فی فکزیشن کمیٹی کے سربراہ کی کرسی خالی رہنے کی وجہ سے سر ابھار رہے ہیں۔
تیسرا اہم معاملہ والدین کی جانب سے فیس ادانہ کرنے کاہے جو ایک بڑا تنازعہ بن رہاہے۔ بعض والدین موجودہ حالات اور کویڈ سے متاثرہ حالات کابہانہ بناکر سکولوں کی فیس ادانہیں کررہے ہیں کیونکہ انکے نام بھاری رقم بقایا ہے ۔ ایسے والدین کی جانب سے سکولی فیس اداکرنے کے لئے چند سکولوں نے آسان قسطوں میں فیس مانگی ہے اور والدین کو اس سہولیت کا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ لیکن ایسے والدین کے بارے میں پرائیویٹ سکو ل مالکان کو غور کرنے کی ضرورت ہے جو واقعی موجودہ حالات سے متاثر ہو کر مشکل سے دووقت کی روٹی کاگذارہ کرپاتے ہیں۔ ان لو گوں کے پاس وسائل نہیں ہیں اور یہ اگر فیس ادانہیں کرسکتے ہیں تو اس بارے میں صرف سکولی مالکان کو ہی نہیں بلکہ سماج کے دوسرے اداروںخصوصاً وقت بورڈ کو آگے آنا چاہئے تاکہ ایسے تنازعات کا حل نکالاجاسکے۔ لیکن اس سب سے اہم یہ ہے کہ ان تنازعات کو سننے کے لئے بااختیار کمیٹی یعنی فی فکزیشن اینڈ ریگولیشن کمیٹی میں سربراہ تعینات کیاجائے تاکہ ان سبھی معاملات کوایک مثبت جہت دیکر حل کیاجاسکے۔