شہر سرینگر میں ان دنوں سمارٹ سٹی کے متعدد تعمیراتی و تجدیدی پروجیکٹوں پر شدومد کیساتھ کام جاری ہے۔ گزشتہ چھ سات مہینوں سے شہر کے قلب لعل چوک اور گردو نواح کے علاقوں میں انتظامیہ نے سمارٹ سٹی کے کئی پروجیکٹ دردست لئے ہیں جن پر دن رات کام جاری ہے۔ شہر کے لعل چوک، ریگل چوک، پولو ویو، ایم اے روڑ، ریذڈنسی روڈ، جہانگیر چوک، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ، امیرا کدل سمیت کئی ایسے علاقوں ہیں جہاں پر فٹ پاتھوں کی تجدید و تزین کاری، ڈرینج نیٹ ورک، بجلی پولوں کی تنصیب، زیر زمین ترسیلی لائنوں کی تنصیب کا کام چل رہا ہے جس کے نتیجہ میں شہر سرینگر میں ایک عجیب و غریب منظر پیدا ہوچکا ہے۔ سمارٹ سٹی پروجیکٹوں کو دردست لینے کی وجہ سے شہر کی سڑکیں اور فٹ پاتھ پر راہ گیروں کا چلنا دشوار بن چکا ہے جبکہ گاڑیوں کی نقل و حمل میں بھی رکاوٹیں آرہی ہیں جس کی وجہ سے مسافروں کا روزانہ کی بنیاد پر کافی سارا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ادھر دوسری جانب شہر سرینگر کے بیشتر علاقوں میں فی الوقت محکمہ بجلی اپنا الو سیدھا کرنے میں انتہائی مشغول دکھائی دے رہی ہے۔ بلاتفریق علاقوں میں سمارٹ میٹروں کے ڈھانچے کو قائم کیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال سرما کی آمد کیساتھ ہی شہر کے بیشتر علاقوں جن کی آبادی قلیل آمدن پر اپنا گذر بسر کررہی ہے، میں سمارٹ میٹروں کو لگایا گیا۔محکمہ بجلی کی ان کارروائیوں کو دیکھ کر یہاں کی آبادی حیران و پریشان ہوکر رہ گئی ہے جو یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ تباہ کن معاشی صورتحال کے درمیان حکام کو کیا ضرورت پڑی کہ غریب علاقوں یا کالونیوں میں سمارٹ میٹروں کو نصب کرنا پڑا۔ لوگوں کی شکایت ہے کہ سال 2019کے بعد اُن کی تجارت اور اُن کا روزگار نہ صرف متاثر ہوا ہے بلکہ ہزاروں ایسے کنبے بھی ہیں جو آج کی تاریخ میں دانے دانے کی محتاج ہیں۔ اگست 2019سے قبل وادی کے نجی سیکٹر میں ہزاروں نوجوان کم قلیل ہی سہی مگر اپنا روزگار کمارہے تھے تاہم جونہی صورتحال نے کروٹ لیکر معاشیات پر کاری ضرب لگائی تو نجی سیکٹر میں ہزاروں ملازمین کو اپنی پرائیویٹ ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ محض چند نوجوانوں نے صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے دوسرے مقامات پر روزگار کمانے کی سبیل کی لیکن نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آج گھروں میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں جو اب ذہنی دبائو کے شکار بھی ہوچکے ہیں۔شہر کو سمارٹ اور جاذب النظر بنانے میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن یہ بات بھی ملحوظ نظر رکھی جانی چاہیے کہ موجودہ صورتحال کو غریب کنبہ جو بڑی مشکل سے اپنا پیٹ کاٹ کر شام کو اپنے اہل و عیال کیلئے کھانا لاتا ہے، وہ کیسے سمارٹ میٹروں کی ماہانہ بلیں ادا کرپائیں گے۔ جب سے محکمہ بجلی نے سمارٹ میٹروں کو نصب کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، تب سے وادی کے شمال و جنوب اور وسطی کشمیر میں صارفین احتجاج پر ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت والی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ زمینی صورتحال کا ازخود جائزہ لیں اور لوگوں کی معاشی صورتحال کو دیکھ کر ہی انصاف پر مبنی فیصلے لیں تاکہ عام لوگوں کو آگے سے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔