تحریر:-فاضل شفیع فاضل
صبح کے وقت گاڑیوں میں کہاں جگہ ملتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے یا گاڑیوں کی تعداد میں کمی ہوی ہے۔ بہت انتظار کے بعد بڑی مشکل سے گاڑی ملتی ہے، جس میں کھڑے ہو کے سفر کرنا پڑتا ہے اور اب یہ روزانہ کا دستور بن چکا ہے۔ روز مرہ کی طرح آج بھی پرویز دفتر جانے کے لیے کافی دیر سے گاڑی کے انتظار میں تھا اور بالآخر اسے گاڑی مل گئی اور خوش قسمتی سے گاڑی خالی ہونے کے سبب پرویز ایک حجاب آمیز لڑکی کے بغل میں بیٹھ گیا۔ لڑکی نے حجاب کا پورا اہتمام کیا تھا اور اس کا چہرہ بلکل ڈھکا ہوا تھا گویا اس کی پہچان کر پانا ایک ناممکن سی بات تھی۔
پرویز نے بغل میں بیٹھی اس لڑکی سے نام پوچھنے کی ایک بے کار کوشش کی۔ پرویز کا دل برے خیالوں میں بہہ گیا اور اس کے دماغ میں طرح طرح کے فحش خیالات نے جنم لیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شیطان پرویز پر حاوی ہو چکا ہے اور بنا سوچ سمجھ کے پرویز نے اپنا ہاتھ دھیرے سے اس لڑکی کی اور بڑھایا اور اس کے ساتھ چھیڑخانی کرنے لگا۔ لڑکی نے کافی جدوجہد کی اور پرویز کی اس بے ہودہ حرکت سے اس کی آنکھوں میں آنسو آئے۔ اس نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بہت صبر و تحمل سے کام لیا۔ وہ چاہتی تو پرویز کا تماشہ بنا سکتی تھی لیکن اس نے یہ مناسب نہ سمجھا اور گاڑی کے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کو کہا اور آدھے راستے میں ہی اتر گئی۔ پرنم آنکھوں سے لڑکی سیدھے اپنے گھر کی طرف چل پڑی اور سارا قصہ اپنی ماں کو سنایا۔
پرویز شام کو آفس سے گھر پہنچتا ہے اور گھر کا ماحول اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ جس پرویز کے لیے آفس سے آتے ہی گرما گرم چائے تیار رہتی تھی، آج اس کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا اور گھر میں کوئی بھی افراد خانہ اسے بات تک نہ کر رہا تھا۔ پرویز نے وجہ جاننے کی کوشش کی، تو اس کی ماں نے پرویز کے گال پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔ پرویز حیرت میں پڑ گیا، اس کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کی آخر ہوا کیا ہے۔ اس کی ماں بول پڑی کہ افسوس میں نے ایسے جلاد بیٹے کو جنم دیا جس کی آنکھوں میں حیا نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اس کے دل میں عورتوں کے لئے کوئی عزت نہیں ہے اور اس قدر میرا بیٹا گر سکتا ہے، میں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔
یہ ساری باتیں پرویز کی سمجھ سے باہر تھیں۔ اسی بیچ پرویز کی چھوٹی بہن عابدہ کمرے میں داخل ہوتی ہے۔عابدہ کی آنکھیں نم تھیں، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس سے پہلے کہ پرویز کچھ کہتا، عابدہ نے بولا بھیا آج گاڑی میں جس لڑکی کے ساتھ آپ نے چھیڑ خانی کی وہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی چھوٹی بہن عابدہ تھی۔ میں ہی آپ کے بغل میں بیٹھی تھی اور مجھے آپ کو بھائی کہنے میں شرم آ رہی ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ میرا بھائی ایسا ہو سکتا ہے۔ بڑا بھائی باپ کے برابر ہوتا ہے اور آپ کی فحش حرکتوں کی وجہ سے میں شرمسار ہوں۔ میرے بھائی لڑکیوں کی عزت کرنا سیکھو۔ یہ تو اچھا ہوا کہ میں آپ کے بغل میں بیٹھی تھی، اگر کوئی دوسری لڑکی ہوتی تو آپ کی اور ہماری عزت مٹی میں مل جاتی۔ میں نے اپنی بہن ہونے کا فرض ادا کیا۔ بھائی، خاص کر گاڑی میں، ہر پرائی لڑکی کو اپنی بہن کی نظر سے دیکھا کرو۔
پرویز شرم کے مارے منہ دکھانے کے لائق نہ رہا۔ اس کو اپنی غلطی کا پورا احساس تھا۔ پرویز کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ اپنے کیے پر شرمندہ تھا۔ اس نے اپنی بہن عابدہ کو گلے لگایا اور وعدہ کیا کہ آج کے بعد وہ ایسی بیہودہ حرکتوں سے باز آئے گا، آخر غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔ پرویز نے اپنی ماں اور اپنی چھوٹی بہن عابدہ سے معافی مانگی اور اللہ کے حضور توبہ کی۔ پرویز نے اعادہ کیا کیا اس سے وہ سب لڑکیوں کی عزت کرے گا اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس چیز کی تلقین کرے گا۔