ذکی نور عظیم ندوی -لکھنؤ
لوگوں کے دلوں میں الفت و محبت پیدا کرکےان کو اخوت و بھائی چارگی کے رشتہ کا احساس دلانا اسلام کی اہم ترین خوبی اور امتیاز ہے جس کو سورۂ آل عمران کی آیت ۱۰۳ میں خصوصی طور پر بیان کیا گیا۔ اس کے باوجود اس وقت مسلمان پوری دنیا میں آپسی اختلاف و انتشار سے دوچار ہےاور یہ دیکھ کر مزیدتعجب اور افسوس ہوتا ہے کہ بسا اوقات اس کی سب سے بڑی وجہ دینی مسائل بن جاتے ہیں ۔
شعبان جو ایک طرح سے رمضان کی تمہید اور اس کیلئے تیاری کا مہینہ ہے ، اس کی پندرہویں تاریخ کو لیکر امت میں سخت انتشار ہے، اگر ایک طبقہ اس رات عبادت اور دن میں روزہ کو مستحب قرار دیتا ہےاور اس پر ہر طرح کی مغفرت کی امید کرتا ہے، تو دوسرا طبقہ اس کو پوری طرح خارج کرتے ہوئے اسے بے دینی اور بدعت قرار دیتا ہے اور ہر بدعت کو گمراہی اور اس کا انجام دوذخ قرار دیتا ہے۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس دین کے ماننے والے قرآن و حدیث کے نام پر ہی اس حد تک متضاد نقطۂ نظر اور مختلف آراء کے مطابق اپنے اپنے نظریہ و مسلک کے داعی و مبلغ اور اس میں اس حد تک سرگرم ہوں کہ ایک دوسرے کی باتیں اور دلائل سننے اور ماننے تو دور اس پر غور کرنے پر بھی تیار نہیں اس دین کی حقیقت دوسرے مذاہب کے لوگ کیسے سمجھیں؟ اور ان کے سامنے حقیقی اسلام اور اس کی تعلیمات کیسے واضح ہو سکیں؟ خاص طور پر ملکی پس منظر میں جہاں اسلام سے متعلق متعدد مسائل ملکی عدالتوں میں غیر مسلم ججوں کے یہاں زیر سماعت ہیں تو وہ اسلام کو سمجھنے کے لئے کیا معیار اختیار کریں اور کن امور کو بنیادی حیثیت دیں جس کی رعایت سے اسلامی تعلیمات کی حقیقت سے واقفیت کا امکان پیدا ہو سکے۔
اسلام کو سمجھنے کے اصول کیا ہیں؟ شریعت اسلامیہ میں کیا چیز مطلوب ہے اور کیا نہیں؟ مطلوبہ چیز دین کا لازمی اور بنیادی جز ہے یا غیر ضروری اور اتفاقی؟ مذکورہ سوالوں کا جواب عصبیت سے اوپر اٹھ کر تلاش کرنے کی خالص علمی انداز میں مخلصانہ اورغیر جانبدارانہ کوشش کی جائے تو ان شاء اللہ یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اسلام، اس کے اصول اور اس کی تعلیمات پوری طرح واضح ہیں ، اس میں خلط ملط ہونے کا کوئی اندیشہ یا اس میں کسی طرح کے شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش نہیں۔
یاد رہے کہ شریعت اسلامی چند ’’مطلوبہ امور‘‘ کے کرنے اور بعض ’’ ممنوعہ امور ‘‘ سے باز رہنے کا نام ہے۔ وہ مطلوبہ امور جن کاثبوت صحیح نصوص (قرآن و حدیث) میں واضح اور صریح طور پر ہو اور نبی اکرمؐ اور صحابہ کرام سے اس کے غیر لازمی ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہو وہ امور دین اسلام کا لازمی اور بنیادی حصہ ہیں، جن کو ’’ٖفرض‘‘ اور اس مفہوم کے دوسرے نام سے جانا جاتا ہے، ان کو بغیر شرعی مجبوری چھوڑنے کی اجازت نہیں، اور بلا عذر چھوڑنے پر گناہ اور سزا ہے ۔ اور اگر ان مطلوبہ امور کے تعلق سے نبی اکرمؐ اور صحابہ کرام سےکچھ ایسے اقوال یا واقعات ثابت ہوں جس سے ان میں کسی طرح کی رعایت یا اس کے غیر لازمی ہونے کی کوئی دلیل ملے تو وہ عمل ’’مستحب‘‘ ہوگا ،جن کی انجام دہی پر ثواب لیکن نہ کرنے پر گناہ یا سزا نہیں۔
اسی طرح اگر کسی چیز کو چھوڑنے اور اس سے دور رہنے کا ثبوت صحیح نصوص (قرآن و حدیث) میں واضح اور صریح طورپر ہو اور نبی اکرمؐ اور صحابہ کرام سےاس سلسلہ میں کسی طرح کی رعایت یا اس کے کرنے کی کوئی دلیل نہ ملے تو وہ ایسے’’ممنوعہ امور‘‘ ہیں جن کو چھوڑنا اور ان سے باز آنا لازمی ہے، ان کو دین اسلام میں’’حرام‘‘ قرار دیا گیا ہے، بغیر کسی شرعی مجبوری اس کو کرنے کی اجازت نہیں اور ایسا کرنے پر گناہ اور سزا ہے۔ لیکن اگران منع کردہ امور کے تعلق سے نبی اکرمؐ اور صحابہ کرام سےکچھ ایسے اقوال یا واقعات ملیں جس سے اس میں کسی طرح کی رعایت معلوم ہو یا اس کے کرنے کےباوجود اس پر تنبیہ کی کوئی دلیل نہ ملے تو وہ ’’مکروہ‘‘ شمار کیا جائے گا، جس کے نہ کرنے پر وہ ثواب کا مستحق ہوگا اور کبھی کسی وجہ سے کرلینے پر گناہ یا سزا کا مستحق نہ ہوگا۔
اور اگر کسی چیز کے سلسلہ میں قرآن و حدیث کے نصوص میں صریح اور صحیح طور پر کوئی تذکرہ نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ اس کا تعلق معاملات سے ہے یا عبادات سے اگر معاملات سے ہے تو وہ عمل جائز ہو گا یعنی بندہ کو وہ عمل کرنے یا نہ کرنے دونوں کا اختیار ہو گا اور کرنے یا نہ کرنے دونوں صورتوں میں بذات خود ثواب یا عذاب نہیں۔ لیکن اگراس کا تعلق عبادات سے ہے تو اس کا کرنا جائز نہیں کیونکہ اسلام نے عبادات کو توقیفی قرار دیا ہے یعنی وہی امور عبادت کے طور پر کئے جا سکتے ہیں جس کے کرنے کا ثبوت قرآن اور حدیث کے نصوص میں صریح اور صحیح طور پر ہو۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ شریعت اسلامیہ کا سمجھنا مشکل نہیں ، تھوڑی سی توجہ، مسلکی عصبیت کے بجائے علمی وسعت نظری اور غور و فکر سے اسلام میں فرض، واجب، حرام، مکروہ اور جائز امور کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود مسلمانوں میں اس قدر اختلاف کیوں؟ اور پندرہ شعبان ، محرم،ربیع الاول، الوداع ،معراج کی شب اور اس جیسے بیشمار مسائل میں الگ الگ نقظہ نظر اور اس پر اس قدر اصرار اور ایک دوسرے کی تردید کا مزاج کیوں؟
اس کو سمجھنے کیلئے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے مسائل کی تعداد بہت کم ہے اورعام طور پران کا تعلق فرض و واجب اور حرام امور سے نہیں، بلکہ ان کا رواج بعض غیر صریح نصوص سے استدلال، کچھ ضعیف اور موضوع روایتوں پر اعتماد اور پھر اللہ کے تقرب کا غیر علمی اور غیر محتاط مزاج اور کبھی کبھی دوسرے مذاہب کی طرح مسلم مذہبی شخصیتوں کی تاریخ پیدائش، وفات یا دیگر اہم تاریخی واقعات کو دینی رخ دینے سے ہوا۔
مثال کے طور پر پندرہ شعبان کی شب کو عبادت اور دن میں روزہ کے استحبا ب اور اس کے خصوصی اہتمام کے پیچھے سورہ دخان میں ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے چند مفسرین کی آراء اور متعدد لیکن سب کی سب ضعیف یا موضوع روایتوں کے مطابق پندرہویں شب مراد لے کراس میں اس قدر غلو کیا جانے لگا کہ دیوالی کی طرح چراغاں، ہلڑ ہنگامہ اور مختلف انواع و اقسام کے پکوان کو دین کا نام دیا جانے لگا۔ اور فضائل اعمال میں نبی اکرم ؐکی طرف ضعیف روایتوں کو بیان کرنے کے جواز کے نام پر ہر طرح کی روایت نقل کرنے کا سلسلہ چل پڑا اور یہ شرط بھلا دی گئی کہ اس کے لئے اس عمل کا پہلے کسی صریح اور صحیح نص سے ثبوت ضروری ہے ورنہ اس کا عذاب صحیح حدیثوں کی روشنی میں دوزخ کی شکل میں ہونے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔
بیشتر مفسرین کے اس سے شب قدر مراد لینے اور اس سلسلہ میں قرآن کی پوری سورت ’’القدر‘‘، دوسری آیتوں اور تواتر کے قریب پہونچنے والی متعدد صحیح روایتوں، اعتکاف کی مشروعیت اور اس حقیقت پر غور نہیں کیا گیا کہ اس سلسلہ میں بیان کردہ بیشتر فضیلتیں شب قدر سے مشترک ہیں۔ اور اس مشکوک مستحب عمل کی خاطر اس پہلو کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا کہ اگر یہ ثابت نہیں تو یہ وہ بدعت ہوسکتی ہے جس کو نبی اکرم ؐ نے گمراہی ، قابل تردید اور دوزخ میں لے جانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اور اس طرح کے مزاج سے موضوع و ضعیف روایتوں کی بنیاد پر دین میں بے دینی کا وہ دروازہ کھل سکتا ہے جس کو بند کرنا آسان نہیں ہوگا۔اور یہ بھی نظر انداز کردیا گیا کہ بدعت و استحباب کی اس کشمکش سے دین کو کتنا نقصان ہورہا ہے۔
[email protected]