الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
پچھلے چند سالوں سے جموں وکشمیر میں منشیات کی وباءتیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ وادی کشمیرہو یا پھر خطہ پیر پنجال، چناب یاجموں کے میدانی علاقہ جات آئے روز منشیات سمگلنگ اور اِس سے شکار ہونے والی نوجوانوں کے متعلق جو خبریں موصول ہورہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہر خطہ یاضلع اس معاملہ میں ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں ہے۔یہ وباءایسی ہے جس کا راست اثر مجموعی طور ریاست پر پڑ رہا ہے۔ کسی بھی ملک وقوم کا سرمایہ اُس کے نوجوان ہیں، جب نوجوان ہی منشیات کا شکار ہوجائیں گے تو پھر اُس قوم کا مستقبل کیاہوگا، کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ ملی ٹینسی کے بعد جموں وکشمیر میں نشہ کی وباءسب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی ہے، اِس میں سرحد پار نارکوٹیرارزم اس سے بھی سنگین مسئلہ ہے۔اگر چہ حکومتی سطح پراِس وباءکے خاتمہ کے لئے کئی اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔کئی غیر سرکاری رضاکار تنظیمیں بھی انسداد ِ منشیات کے نام موجود ہیں مگر ’مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا دی‘کے مترادف اِس صورتحال میں بہتری کے آثارنظر نہیں آتے۔
ایک منظم ومنصوبہ بند طریقہ سے ڈرگ مافیا منشیات کی زیادہ سے زیادہ کھپت کو یقینی بنانے کے لئے کام کر رہا ہے تاکہ ڈیمانڈ کو زیادہ سے زیادہ بڑھایاجائے ۔نشہ کے کاروبار یا اِس کے استعمال کے عادی ہونے والے نوجوانوں کا اگر آپ جائزہ لیں تو اِس میں زیادہ اچھے گھرانے کے بچے آرہے ہیں، جن کے والدین یا تو ملازم پیشہ ہیں ، ٹھیکیدار ہیں یاکوئی اور اچھا کاروبار کر رہے ہیں۔ خاص کر اکلوتی اولاد ’وارث جائیداد ‘جس کو بڑے ناز نخروں سے پالاگیا وہ آج نشہ میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو بھی بھول چکا ہے۔گھروں کے گھر اور خاندانوں کے خاندان تباہ ہورہے ہیں۔منشیات کئی دیگر سماجی مسائل کو بھی جنم دے رہی ہے۔ والدین آج اپنے بچوں کو اسکول بیچنے سے بھی ڈرتے ہیں، جن کے بچے اِس وباءمیں مبتلا ہیں وہ یہ دُعا ئیں کر رہے ہیں کہ بچہ کچھ بھی نہ کرے، پڑھے بھی نہ مگر اِس وباءسے باہر نکل آئے ۔
کچھ والدین اِس قدرتنگ آچکے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کی موت کی دُعا کرتے ہیں۔نوجوان جوکہ خاندان، کنبہ ،سما ج اور اِس ملک کا مستقبل ہیں وہ تباہ وبربادہورہے ہیں۔ معاشرے کے اندر کچھ لوگ ڈرگز کا کاروبار کرنے کی وجہ سے اچانک چند دنوں میں امیر ہورہے ہیں اِس وجہ سے بہت سے لوگ ترقی کے اِس ’شارٹ کٹ ‘راستے پر چلنے کی طرف زیادہ مائل ہورہے ہیں، وہ راستہ جس پر آپ کا ہر قدم کسی کے گھر کے چراغ کو بجھانے کا سبب بن رہا ہے۔
منشیات کی کئی وجوہات ہیں اور اِس کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو اپنے آپ میں ایک طویل موضوع ہے۔مثلاً دین سے دوری، والدین کی طرف سے اولاد کی روزمرہ سرگرمیوں پر قریبی نگاہ نہ رکھنا ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوتاہی ل، ڈرگس کے سپلائی چین کو توڑنے کیلئے مخلصانہ کوششیں نہ کرنا ، گرفتارہونے والے منشیات اسمگلروںکیخلاف عدالت میں جرم ثابت نہ ہونا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ اِس کے لئے کسی ایک شخص یا چند اشخاس کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی مشکل ہے۔ اسی طرح اس پر قابو پانے کے لئے بھی چند لوگوں یا اداروں پر ذمہ داری عائد نہیں کی جاسکتی ۔یہ مجموعی طور ہم سب کا مسئلہ بن چکا ہے جس کے خاتمہ کیلئے انفرادی اور اجتماعی کوششیں درکار ہیں۔
وجوہات کئی ہونے کی وجہ سے اِس کا حل بھی الگ الگ ہے جس میں سب سے بہترحل’علاج کی بجائے احتیاط‘ہے۔ یعنی کہ منشیات سے خود کو دور رکھیں، اِس کااستعمال نہ کریں۔ اگر ڈیمانڈ نہیں ہوگی تو سپلائی خود بخود رُک جائے گی۔ اگر ڈیمانڈ بھی ہے تو سپلائی بھی ہورہی ہے تو پھر مسائل پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔پھر استعمال کرنے والوں کونشہ چھڑانا اور سپلائی کرنے والوں کو گرفتار کر کے اُن کیخلاف کارروائی کرنادو اہم مراحل ہیں۔ مجموعی طور ہم دیکھیں تو اس وباءکے خاتمہ میں تین بڑے اسٹیک ہولڈرز آتے ہیں جن میں والدین ، معاشرہ ور پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں اور اِنہیں کو نبھانے میں ہونے والی کوتائیاں صورتحال کوسنگین بناتی جارہی ہیں۔
جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بات ہے تو منشیات فروشوں پر نکیل کسنے کے لئے باقاعدہ’نارکوٹیک ڈرگس اینڈ سائیکو ٹراپک سبسٹانس ایکٹ1985‘ہے جس کو عام طور پر ’این ڈی پی ایس‘ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔قانون سخت سے سخت موجود ہے جس میں لیجسلیچرز نے کوئی کمی نہیں چھوڑی، مگر اِس میں بتائے گئے طریقہ کار کو نافذ نہ کرنا وجہ ہے۔ اس کے تحت ملزمین کے لئے سخت سے سخت سزاکی گنجائش موجود ہے لیکن سزا تب ہوگی جب جرم ثابت ہوگا۔ این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت جموں وکشمیر کے اندر ہر سال سینکڑوںکی تعداد میں مقدما ت درج ہوتے ہیں اور ہزاروں افراد کی گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں مگر سزا پانے والوں یعنیConvictionشرح بمشکل 1یا2فیصد ہے۔یہ پورا ایکٹ ٹیکنیکل ہے اور اِس میں پروسیجر ایسا رکھاگیا ہے کہ کوئی بے گناہ گرفتار نہ ہوجائے اور جو اصل گنہگار ہے وہ بچ نہ سکے لیکن این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی تحقیقات کے دوران اِتنی ٹیکنیکل خامیاں چھوڑی جاتی ہیں کہ منشیات فروش /ملزم بری ہوجاتا ہے ۔عدالت میں بغیر کسی شک وشبہ جرم ثابت ہوگا تبھی سزا ہوگی ۔ اگر زرا بھر بھی شک کی گنجائش باقی رہی تو پھر اِس کا فائیدہ ملزم کو ملے گا۔
آپ اپنے آس پاس مشاہدہ کریں بہت سارے ایسے لوگ ہوں گے جومنشیات اسمگلنگ کی وجہ سے گرفتار ہوئے مگربہت جلد رہا ہوجاتے ہیں، کوئی زیادہ سے زیادہ بھی جیل میں رہے تو بمشکل دو تین سال ، پھر باہر آجاتا ہے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن میں این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت متعدد مقدمات انڈرٹرائل ہیں، باوجود اِس کے وہ پھر کام کر رہے ہیں۔اگر تحقیقات صحیح ہوتی، عدالت میں جرم ثابت ہوجاتا ، قرار ِ واقعی سزا ملتی تو منشیات کا دھندا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی و ہ ایسا کرنے سے پہلے کئی بار سوچتے، مگر اُن کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ اگر پکڑے بھی گئے تو کچھ عرصہ بعد ضمانت ملی جائے گی اور بری ہونے کے زیادہ سے زیادہ امکانات موجود ہیں۔
ملزم کی گرفتاری سے لیکر چالان پیش کرنے تک دوران ِ تحقیقات کئی ایسی خامیاں رہتی ہیں جو منشیات کی بڑھتی وباءکے لئے ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ زیادہ تر این ڈی پی ایس مقدمات میں Chance Recoveryبتائی جاتی ہے یعنی کہ ناکہ لگایاتھا اچانک شک کی بنیاد پر ملزم کو پکڑا ، دوران ِ تحقیقات اُس سے منشیات برآمد ہوئی وغیرہ وغیرہ ۔ مگر بیشتر معاملات میں ایسا ہے کہ پولیس کو پہلے سے اطلاع ہوتی ہے پھر بھی جان بوجھ کر چانس ریکوری ظاہر کی جاتی ہے۔ پہلے سے اطلاع ہونے اور اچانک ضبطی وگرفتاری میں بہت فرق ہے اور دونوں صورتوں میں تحقیقات کا طریقہ کار بھی الگ الگ ہے۔ اگر پہلے سے اطلاع ہے کہ منشیات فروش کس جگہ ہے اور کہاں جارہا ہے تو پھر پولیس کو پہلے ایف آئی آر درج کرکے ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کو ساتھ لیکرضبطی وگرفتاری عمل میں لانی ہوتی ہے جبکہ چانس ریکوری میں برموقع ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اکثر وبیشتر مقدمات میں ایسا ہوتا ہے کہ جتنی مقدار میں منشیات ضبط ہوتی ہے اُتنی فرد ِ ضبطی میں دکھائی نہیں ہوتی۔ضبط شدہ منشیات مقدار اگرتجارتی نوعیت(کمرشل) ہے تو اُس میں ضمانت کے امکانات بہت کم ہیں ۔چھوٹی یا درمیانہ درجہ کی مقدار میں ضمانت مل جاتی ہے، اس لئے مبینہ طور پہلی بڑی خامی ضبط شدہ منشیات کی مقدارپوری فرد ِ ضبطی میں ظاہر نہ کرنا ہے۔اس کے علاوہ فردات ضبطی، رضامندی ،برآمدگی، گرفتاری، جامع تلاشی وغیرہ کو برموقع مرتب نہ کرنا ، دوران ِ تحقیقات سول گواہ کو شامل نہ کرنا، سیلنگ اور ری سیلنگ، ضبط شدہ منشیات کے نمونہ جات کوایف ایس ایل تک محفوظ نہ پہنچانا وغیرہ ایسی ٹیکنیکل خامیاں ہوتی ہیں کہ جرم ثابت نہیں ہوپاتا۔این ڈی پی ایس ایکٹ میں کچھ ضروری دفعات ایسی ہیں جن میں بتائے گئے ضابطہ کو من وعن عملایا ہے جن میں سیکشن 41, 42, 43, 50, 52-A, 55اور57شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شخص جو ملزمان سے برآمد کرتا ہے، ایف آئی آر درج کرتا ہے وہی تفتیشی بھی ہوتا ہے۔ سول گواہ کو موقع کا گواہ نہ بنانا، وزن کرنے کے لئے ترازو کسی دکاندار یا میوہ فروش سے لینا، جس جگہ سے برآمدگی ہوتی ہے وہ عدالت میں ثابت نہ ہونا، ملزم کی ذاتی تلاشی ثابت نہیں ہوتی، تحقیقات واحدملزم کے فرد ِ انکشاف پر منحصر ہونا، مختلف پیکٹ برآمد ہونا لیکن بغرض کیمیکل معائنہ نمونہ جات صرف چند پیکٹوں سے ہی لینا، مالخانہ رجسٹر میں اندراج نہ ہونا، نمونہ جات تاخیر سے لیبارٹری بھیجنا وغیرہ شامل ہیں۔
سال2013کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے این ڈی پی ایس ایکٹ مقدمات کی مناسب اور پیشہ وارانہ تحقیقات نہ کئے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیاتھا۔ عدالت عالیہ نے اس کا از خود نوٹس بھی لیا جس کوبعد میں مفاد عامہ عرضی نمبر05/2013میں تبدیل کردگیا۔ اس میں جاری ہدایات کے بعد محکمہ داخلہ امور حکومت ِ جموں وکشمیر کی طرف سے محررہ25ستمبر2017کو ایک سرکیولر نمبر02-Home of2017جاری کیاگیا جس میں این ڈی پی ایس ایکٹ کے لئے اسٹنڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر(SOP’s)بتائی گئی ہیں۔ 44صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی سرکیولر میں دوران ِ تحقیقات کی جانے والی تمام خامیوں کا احاطہ کر کے اُس کا حل بھی بتایاگیا ہے لیکن اِس پر عمل ندارد ہے۔
منشیات کے چیلنج سے نپٹنے کے لئے انفرادی طور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ احتیاط برتیں زیادہ سے زیادہ خوداور اپنوں کو اِس وباءسے دور رکھیں۔منشیات کی ڈیمانڈ کو کم کریں۔ بڑے شہروں سے لیکر گاو ¿ں، گلی محلہ تک بڑھتی ڈیمانڈکو روکنے کے لئے ہرممکن اقدامات اُٹھائیں تو دوسری اور پولیس کو چاہئے کہ وہ ڈرگ سپلائی چین کوتوڑے اور بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالے جوبطور قائد ِ ڈرگ مافیا کام کر رہے ہیں، اِس پوری چین میں سے چند مہروں کو پکڑنے سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔ بیماری کی جڑتک پہنچا کراُس کو اُکھاڑنے کی ضروررت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس جموں وکشمیرہائی کورٹ جموں میںوکیل ہیں
ای میل:[email protected]