ہلال بخاری(ہردوشورہ کنزر )
نیا بھر میں ایک خاص دن منایا جا رہا ہے۔ آج آپ میری کہانی سن لیں۔شاید میری کہانی اس دن کی حرمت کے لئے گراں نہ گزرے اور یہ دن منانے والوں کو ایک اور مثال ملے جسے جوڑ کر وہ اپنی دلیل کو اور زیادہ مظبوط اور کارآمد بنانے میں کامیاب ہوں۔
جب میں پیدا ہوئی تو میرے بابا کو بہت غصّہ آیا۔ انہوں نے آگ بگولا ہو کر میری امی سے کہا ،
” تم نے پھر سے اپنی ہی جنس کو ترجیح دی ہے”
میری ماں کی بے بسی اس کے خشک ہونٹوں سے ظاہر تھی۔ اس نے روتے ہوئے پوچھا، ” کیا آپکا یہ یقین نہیں ہے کہ کچھ بھی عطا کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہے،میری کیا خطا ہے ؟”
یہ سن کر میرے بابا غصے سے کمرے سے باہر چلے گئے جس کا اندازہ مجھے اس کے دروازہ بند کرنے کے انداز سے ہوا۔ دروازے کی آواز سن کر میری معسوم ذات لرز گئی اور مجھے اندازہ ہوا کہ میری خوش آمدید ہورہی ہے۔اگر میں بالغ ہوتی تو شاید مجھے اس بات کا اندازہ ہوتا کہ میں پھر بھی خوش نصیب تھی کہ کم از کم میری جان تو بچی۔ ورنہ یہاں کتنی ہی معسوم جانوں کو روشنی دیکھنے سے پہلے ہی موت کے اندھیرے میں دھکیلا گیا۔
کچھ سال گزرنے کے بعد جب مجھے بار بار اس بات کا احساس ہوا کہ میری ہر خواہش پر میرے متضاد جنس کو ترجیح دی جاتی ہے تو مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ مجھے دراصل کسی دوسرے ماحول اور شخص کے لایک بنانے کے لئے تیار کیا جارہا ہے اور میری اپنی کوئی پہچان نہیں ہے۔
ایک دن جب میں اسکول سے اکیلی گھر کو لوٹ رہی تھی تو کچھ نوجوان میرا پیچھا کرنے لگے۔وہ بے شرموں کی طرح گندی گندی گالیاں دینے لگے۔ میں سہم گئی وہ زور سے ہنسنے لگے۔ انکے وحشتناک قہقہے میرے زہنی عزاب کا باعث بن رہے تھے۔ میں بھاگتی رہی میرے پاؤں دکھ رہے تھے مگر ان لوگوں سے بہت دور نکل کر میں نے خود کو خوش نصیب تصور کیا کہ اللہ نے مجھے بچالیا۔ مجھے معلوم تھا کہ بہت ساری لڑکیاں اس دنیا میں اتنی خوش قسمت نہیں ہیں کہ جو درندوں سے خود کو محفوظ رکھنے کامیاب ہوں۔
گھر میں جب یہ خبر پہنچی تو بابا کو مجھ پر بہت غصّہ آیا اور اس نے اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہوئے کہا،
"کل سے تم اسکول نہیں جاو گی۔ ہماری بدنامی مت کراو”
میں حیران ہوئی کہ یہ کیسا سماج ہے جہاں درندوں کی آزادی اور معصوموں کی قید کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ مگر مجھ کو یہ بھی احساس تھا کہ میں پھر بھی خوش نصیب تھی کہ میں نے کم از کم کچھ سال تو اسکول جاسکی ۔مجھے معلوم تھا کہ مجھ جیسی بہت سی لڑکیوں کے شوق اور جزبوں کو انکے بچپن میں ہی کچلا گیا ہے۔
چند سال بعد میری شادی ہوئی اور مجھے اپنے جانے پہچانے ماحول سے نکال کر ایک اجنبی ماحول میں نسب کیا گیا۔ یہ اگرچہ پہلے عجیب سا لگا مگر موت کی طرح اٹل ہونے کی وجہ سے یہ پھر بھی قابل تسلیم تھا۔ مگر میری شادی میری بدقسمتی سے ایک ایسے شخص سے ہوئی جو بہت سی بری عادتوں کا غلام تھا ۔ اس کے گھر والوں نے سوچا کہ شادی کے بعد وہ سدھر جائے گا اس لیے سب نے یہ موزوں سمجھا کہ مجھے ہی تجربہ گاہ بنایا جائے۔ میری رائے کو کوئی خاص اہمیت نہ ملی اور مجھے اپنی شرم اور حیا کا لحاظ رکھنا ہی تھا۔
وہ شخص شراب پی کر مجھے مارتا تو سب مجھے ہی صبر اور تحمل کا سبق پڑھاتے۔ایک دن مجھ سے رہا نہ گیا اور میں زور سے اپنی کھوٹی قسمت پر رونے لگی تو سب نے میرے پاگل ہونے کا اعلان کیا۔
آخر کار اس شخص نے مجھ سے تنگ آکر مجھ پر بد چلنی کی تہمت لگاکر میرے خلاف مفتی صاحب سے فتوا سادر کرایا اور پھر مجھے طلاق دے دی۔ میں چیختی رہی کہ میں بے گناہ ہوں مگر اس کے کیا فائدہ ہونے والا تھا۔ پھر نہ میں یہاں کی رہی اور نہ وہاں کی۔ میری زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ نہ سسرال پر میں میری کوئی قدر رہی اور نہ میکے پر میرا کوئی حق رہا۔
پھر کچھ مردوں نے میری بے بسی کا خوب فائدہ اٹھانے کے لئے مجھے قید کیا اور اپنے حیوانی نفس کو بہلاتے رہے۔ کچھ دنوں بعد پولیس کو کہیں سے خبر ہوئی اور وہ وہاں پہنچے جہاں میں قید تھی۔ مجھے لگا کہ مجھے بچا لیا گیا ہے مگر انہوں نے گالیاں دے کر مجھے جیل میں دھکیلا۔ مجھ پر یہ الزام ہے کہ میں مردوں کا ایمان تباہ کر رہی ہوں۔میں اس قید میں اکثر کسی مقرر کی تقریر سن کبھی زور سے روتی ہوں تو کبھی چیخ کر ہنستی ہوں جب وہ کہتا ہے کہ عورت شیطان کا سب سے خطرناک ہتھیار ہے۔ جیل والے لوگ میرا رونا اور ہنسنا ایک ساتھ سن کر یہ ارادہ کرتے ہیں کہ مجھے پاگل خانے میں منتقل کریں۔