سہیل علی(پونچھ، جموں)
گھر سے لیکر شہر تک انگریزی زبان کا استعمال عام ہو چکا ہے۔لیکن اس کا صحیح استعمال نہ آنا بھی مشکل ہے۔یہ سچ ہے کہ ہمارے ملک کی سرکاری زبان ہندی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدالت سے لیکر بیشتر دفاتر میں کام کاج زیادہ تر انگریزی زبان میں کیا جاتا ہے۔گویا وقت یوں آچکا ہے کہ والدین کو دو وقت کی روٹی کی فکر سے زیادہ بچوں کی انگریزی تعلیم کی فکر ہو نے لگی ہے۔ایک غریب انسان بھی اپنے بچوں کوصرف اس لئے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانا چاہتا ہے تاکہ اس کی بنیادانگریزی میں مضبوط ہو جائے۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا سرکاری تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان میں تعلیم نہیں دی جاتی؟کیا سرکاری اداروں میں انگریزی پر خاص توجہ نہیں دی جاتی؟ یا پھر کچھ اور وجوہات ہیں جن کی بناء پر طلباء سرکاری اسکولوں کے مد مقابل نجی تعلیمی اداروں پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔سماج کا یہ بھی ماننا ہے کہ کھانے کی چیزوں سے لیکر دوائیوں اور اس سے بھی آگے یعنی ہر ایک میدان میں انگریزی زبان کا کھلم کھلا استعمال ہو رہا ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی سمجھی جا رہی ہے۔ سرکاری اداروں میں نوکری حاصل کرنے سے لیکر نجی اداروں میں نوکری حاصل کرنے تک انگریزی زبان کا ہونا لازمی سمجھا جا نے لگا ہے۔ مقابلہ جاتی امتحانات میں انگریزی زبان میں مہارت ہونا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ اب تو ہر بچہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا خواں ہے۔امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کیلئے کوئی مشکل نہیں لیکن وہ طلباء جن کے گھروں میں مشکل سے دو وقت کی روٹی میسر ہے، ان کا کیا ہوگا؟
ایک جانب ملک میں قومی تعلیمی پالیسی کا نفاذ زوروں پر ہے، مادری زبانوں پر خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے لیکن انگریزی زبان سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت چھ سے چودہ برس تک کے بچوں کو مفت تعلیم دینے کی کاربند ہے لیکن اسی زمرے میں سرکاری تعلیمی اداروں سے طلباء کی تعداد کم ہو رہی ہے جو کئی طرح کے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں طلباء کی تعداد کم ہو رہی ہے اور اسکولوں کو کلب کرنے تک کی نوبت آئی؟ کیا سرکاری اداروں کا نظام تعلیم اتنا کمزور ہو رہا ہے کہ ایک غریب گھر کا طالب علم بھی اس جانب بڑھنے کو تیار نہیں؟کیا وہاں کے نصاب میں کوئی کمی ہے کہ طلباء نجی تعلیمی اداروں کی جانب توجہ کر رہے ہیں؟ اس جانب جموں وکشمیر کے شعبہ تعلیم کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ سرکاری اداروں میں طلباء کی گھٹتی ہوئی تعداد کو بہتر بنایا جاسکے اور تعلیم ہر گھر تک پہنچ سکے۔اگر یہ سلسلہ بدستور جا ری رہا تو یقینا سرکاری اداروں کے تعلیمی نظام سے یقین اٹھ جائے گا۔یاسر ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور ایک سرکاری اسکول میں گیارھویں جماعت میں پڑھتا ہے وہ اپنی جماعت میں کافی اچھا ہے اور کافی محنتی بھی ہے۔اس کی مالی حالات نے اس کو جدید دور کے آلات سے دوررکھا ہوا ہے۔اسکا اسکول بھی گھر سے دور ہے جہاں سے ہر روز اسکول پہنچنا مشکلات سے بھرا ہے۔یاسر کو انگریزی زبان پر خاص دسترس نہیں ہے۔وہ جب اسکول نہیں پہنچ پایا تو گھر پر ہی پڑھنے کو ترجیح دی، کتابیں کھولیں لیکن انگریزی زبان کے اسباق کچھ زیادہ سمجھ نہیں آئے اور پریشانی بڑھنے لگی۔ تب اسے محسوس ہونے لگا کہ انگریزی زبان پر دسترس نہ ہونا بھی کتنا مشکل ہے۔ یاسر کا ماننا ہے کہ ہمارے مضامین اکثرانگریزی زبان میں ہوتے ہیں اور انگریزی زبان میں ہی کمزور ہونا کسی مشکل سے کم نہیں۔اس کا ماننا ہے کہ مادری اور علاقائی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر تعلیمی اداروں میں خاص توجہ دینی چاہئے۔اسکولوں میں انگریزی زبان کی کمزور حالت پر بات کرتے ہوئے ایک اور طالب علم وسیم ثاقب نے کہاکہ ہمارا سارا نصاب لگ بھگ انگریزی زبان میں ہے لیکن ہمیں اس سلسلے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ بنیادی طور پر ہماری انگریزی زبان میں کمزوری ہے۔اس نے مزیدکہاکہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ ہم کسی نجی کوچنگ سینٹر میں جاکر انگریزی زبان پر دسترس حاصل کرنے کیلئے کوچنگ کریں۔ گاؤں کی سطح پر بھی ایسے معاملات ملتے ہیں جہاں طلباء کی انگریزی زبان کافی کمزور ہوتی ہے۔وسیم کہتے ہیں ایک تو وسائل کی کمی تو دوسری جانب ایسے کوچنگ مراکز کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں زبان پر دسترس نہیں ہوتی اور بالآخر ہمیں مقابلہ جات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انگریزی زبان کو ہندوستان میں بہت زیادہ ضروری بنا دیا گیا ہے۔ جس طرح سے مغلیہ دورمیں انگریزوں کو ہندوستان میں جگہ دی گئی اورانگریزوں نے ہندوستان کو ٹکڑوں میں بانٹا اسی طرح آج انگریزی زبان امیر اور غریب طلباء کوانگریزی زبان کے ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے۔سوچنے کی بات یہی ہے کہ سرکاری اداروں میں طلباء کو انگریزی زبان کی اچھی تعلیم کیوں نہیں دی جارہی؟آخر کمی کس چیز کی ہے۔ان سرکاری اداروں کے طلباء کو مجبوراً نجی تعلیمی اداروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ یہاں وہ طلباء پھر کٹ جاتے ہیں جن کے پاس ذرائع نہیں ہوتے اور اس طرح انگریزی زبان کی چاہت اور ضرورت انہیں ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے۔سرکاری تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات انجام دینے والے قوم کے اخلاق کے میناروں سے امید ہے کہ وہ اس جانب ضرور توجہ دیں گے تاکہ انگریزی زبان کے سلسلے میں طلباء میں پائی جا رہی کمزوری کی وجہ سے انہیں مستقبل میں پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔(چرخہ فیچرس)