فاضل شفیع فاضل
آصفہ نے نویں جماعت کا امتحان اچھے نمبرات سے پاس کیا۔ آصفہ اقبال کی اکلوتی بیٹی تھی جو کہ کافی ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فرمان بردار بیٹی تھی۔ اپنے ماں باپ کا ہر حکم ماننا اور ان کی قدر کرنا آصفہ کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ آصفہ دل لگا کر اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج میں اپنی ماں کا ہاتھ بھی بٹاتی تھی۔ آصفہ اب دسویں جماعت کی طالبہ تھی اور اس کی لگن اور محنت رنگ لائی اور آصفہ نے دسویں جماعت کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ یہ خبر سن کر اقبال بے حد خوش ہوا اور اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ کیوں نہ اس خوشی کے موقع پر آصفہ کو کوئی اچھی سی چیز تحفے میں پیش کی جائے۔ بہت سوچنے کے بعد اقبال نے بازار سے ایک موبائل فون خرید لیا اور گھر آتے ہی آصفہ کے ہاتھ میں ایک نیا موبائل فون تھما دیا۔ آصفہ کے ہاتھ کوئی نئی اور عجیب سی چیز لگی تھی کیونکہ آج تک آصفہ نے موبائل فون نہیں دیکھا تھا۔
موبائل فون ہاتھ میں لیتے ہی آصفہ دوسری دنیا میں چلی گئی جو اس کے لیے بے حد خوبصورت اور دلفریب تھی۔ آصفہ نے اپنے باپ کا شکریہ ادا کیا اور اپنا بیشتر وقت موبائل فون کے ساتھ صرف کرنے لگی۔ جو آصفہ نماز پنجگانہ کی پابند تھی، اب دھیرے دھیرے نماز پڑھنا چھوڑ رہی تھی! جو آصفہ شام کے کھانے کے بعد اپنی پڑھائی کیا کرتی تھی، اب دیر رات تک موبائل فون میں طرح طرح کی ویڈیوز دیکھا کرتی تھی۔ آصفہ کو موبائل فون کی لت لگ چکی تھی۔ ماں باپ کی ایک فرمانبردار بیٹی کس طرح نافرمان ہوئی، یہ بات اقبال کی سمجھ سے باہر تھی۔ آصفہ کی زندگی پوری طرح سے بدل چکی تھی اور اس کے مزاج میں کافی ساری تبدیلیاں صاف صاف عیاں تھی۔
ایک روز آصفہ کے فون پر کسی انجان لڑکے کی مس کال آتی ہے۔ آصفہ کے فون کرنے پر وہ لڑکا خود کو عابد کے نام سے متعارف کراتا ہے۔ دونوں میں کافی عرصے تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شروعات دوستی سے ہوتی ہے اور پھر آصفہ اور عابد کی دوستی پیار میں بدل جاتی ہے۔ آصفہ عابد کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتی لیکن وہ اپنا دل عابد کو دے بیٹھتی ہے۔ عابد ایک امیر باپ کی بگڑی اولاد ہے جو کہ ہر قسم کے نشے کا عادی رہتا ہے اور لڑکیوں سے جھوٹا پیار کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔ عابد کے دل میں آصفہ کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی ، وہ بس آصفہ کا استعمال کرنا چاہتا تھا۔ دوسری جانب آصفہ عابد کے پیار میں اس قدر گرفتار ہو چکی تھی کہ وہ عابد کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی اور اب عابد ہی اس کے لیے سب کچھ تھا۔ ایک مس کال کی وجہ سے آصفہ کے دل میں اپنے ماں باپ کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔ آصفہ پیار میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ اس نے اپنی فحش تصویریں موبائل کے ذریعہ عابد کو بھیجی تھی اور نادان آصفہ اس کے انجام سے بالکل بے خبر تھی۔
عابد نشے کا قیدی تھا اور منشیات حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی چوری بھی کرتا تھا۔ عابد شراب کی دکان پر جاتا ہے لیکن اس کی جیب خالی رہتی ہے۔ وہ دکان مالک سے محض ایک بوتل شراب کا سودا آصفہ کی فحش تصاویر کے عوض کرتا ہے اور اس طرح آصفہ کی ساری فحش تصویریں دکان مالک کے پاس چلی جاتی ہیں۔ عابد آصفہ کا نمبر اپنے فون سے حذف کرتا ہے اور اپنے دل سے اس کا خیال نکال دیتا ہے۔
دکان مالک کچھ پیسوں کی خاطر آصفہ کی ساری تصویریں انٹرنیٹ پر ڈال دیتا ہے اور اس طرح آصفہ کی فحش تصویروں کو ساری دنیا دیکھتی ہے۔ آصفہ کی عزت سر بازار نیلام ہو جاتی ہے اور وہ سماج میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتی۔ جب اقبال کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے، اس کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ آصفہ کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ عابد ایسا کر سکتا ہے۔ وہ عابد، جس کے لیے آصفہ نے اپنے ماں باپ کو نظر انداز کیا تھا، جس کے ساتھ آصفہ نے محبت کی تھی، کیا اس قدر بے وفا ہو سکتا ہے؟ آصفہ کو اپنے وجود سے نفرت ہوگئی تھی۔ اقبال اپنے آپ کو قصوروار مان رہا تھا، اگر وہ آصفہ کے ہاتھ میں موبائل فون نہ دیتا، تو آج اس کی بیٹی کو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا! ایک موبائل فون نے اقبال کے خوشحال خاندان کو تباہی کے اس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا تھا جہاں سے نکلنا اب ان کے لئے بہت دشوار تھا ۔
آصفہ ٹوٹ چکی تھی اور اسے جینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ اقبال کو اپنی بیٹی سے بے حد پیار تھا اور وہ اس کی ہر غلطی کو معاف کرنے کے لئے تیار تھا۔ آصفہ نے اپنے ماں باپ کے لاڈ پیار کا غلط فائدہ اٹھایا تھا۔ اپنے ماں باپ کی بےعزتی آصفہ کو اندر سے کھائے جا رہی تھی اورآصفہ کو خودکشی کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتی تھی۔ اپنے ماں باپ سے بے وفائی اور عابد کے جھوٹے پیار نے آصفہ کے دل کو چھلنی کیا تھا اور ایسا درد دیا تھا جس کی کوئی دوا نہ تھی اور وہ موت کو گلے لگانے کے لیے بے تاب تھی۔ آصفہ خودکشی کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر اتفاق سے اقبال کو اس بات کی واقفیت ہو جاتی ہے اور وہ آصفہ کو روک لیتا ہے۔ اقبال اپنی بھیگی آنکھوں سے آصفہ کو گلے لگاتا ہے اور اس کو سمجھاتا ہے کہ زندگی اپنے دکھ درد سے لڑنے کا دوسرا نام ہے اور خودکشی ایک بزدل کا کام ہے اور میری بیٹی آصفہ بہت بہادر ھے۔” آصفہ تو میرے بڑھاپے کا سہارا ہے، تمہیں میرے لیے جینا ہوگا”۔ آصفہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے باپ کا دیا ہوا موبائل فون توڑ دیتی ہے اور روتے ہوئے اپنے باپ سے کہتی ہے کہ اتنا سب ہونے کے پیچھے بس یہ موبائل فون تھا جس نے میری زندگی تباہ کرکے رکھ دی اور آج میں وعدہ کرتی ہوں کہ جب تک زندگی میں کچھ حاصل نہ کروں، تب تک موبائل فون کا استعمال نہیں کروں گی۔ آصفہ اپنے ماں باپ کے ہمراہ پھر سے ایک نئی زندگی کی شروعات کرتی ہے۔۔