از قلم :منظور احمد بانڈی( منڈی، پونچھ)
وزیراعظم کے نام سے ایک سکیم جسکو پردھان منتری گرام سڑک یوجنا(پی ایم جی ایس وائی)کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس سکیم کے تحت تمام دیہی علاقوں کو شہروں کے ساتھ ملانامقصود ہے۔ 25 دسمبر 2000 ء کو اس سکیم کو شروع کیا گیا تھا۔ لیکن تاحال اس سکیم کا کوئی خاطر خاں نتایجہ بر امد نہیں ہوا۔ملک بھر کی دیگر ریاستوں کے دیہی علاقوں کا حال تو ایک الگ بات ہے۔ ہندوستان کا تاج کہی جانے والی جموں و کشمیر جو 2019 تک ریاست کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کے تمام دیہی علاقوں میں ابھی بھی سڑکوں کا خاطرخاں انتظام نہیں ہے۔ جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ جو جموں ہیڈ کوارٹر سے 235 کلو میٹر کی دوری پر واقعہ ہے۔جسکی تحصیل منڈی کے بلاک لورن کی پنچائیت چکھڑی بن جہاں 90فیصدی لوگ اس وقت تک سڑک کی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہاں کے سڑکوں کی حالت دیکھ کر دل میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ جس علاقہ میں سڑک نہ ہوگی وہاں لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہونگے؟ آخر کیوں چکھڑی بن کی عوام سڑک سے محروم ہے؟ سڑک کی عدم دستیابی کا کب ہوگا سدباب؟ اس حوالے سے ہم نے مقامی باشندہ ممتاز احمد بانڈے جن کی عمر 35 سال ہے، سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ سڑک کا کام جو 2006 میں پلیرہ مین روڑ سے لگایا گیا تھا۔ جو کہ خالی زہے، کھدائی کر کے چکھڑی کی حد تک لایا گیا تھا۔ پنچایت چکھڑی جو چار گاوں پر مشتمل ہے۔ جس میں بن اول بن دوم بن سوم ناگاناڑی جو کے دس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ آج بھی یہاں کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔پلیرہ یا لوہل بیلاسے بن بالا یا ناگاناڑی تک چار سے پانچ گھنٹے پیدل چلناپڑتاہے۔ راشن کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر موڑہ کھیتاں بلیدا بن بالا ودیگر بن ناگاناڑی تک بہت ہی کٹھن راستہ طے کر کے اپنے گھروں تک راشن پہونچایاجاتاہے۔
ستم ظریفی یہ کہ اگر کوئی حاملہ عورت بیمار ہو جاتی ہے۔ تو اس کو چارپائی پر اٹھا کر دس کلومیٹر پیدل سڑک تک پھنچایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہاں کے بیماروں،زحمیوں وغیرہ کی منڈی پہونچنے تک جان سے بھی ہاتھ دھوناپڑاہے۔کبیر دین بانڈے جن کی عمر 33 سال ہے۔ ان سے بات کی تو انہوں نے کہاکہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے گاوں کے لوگوں کو بہت ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پلیرہ سے یا لوہیل بیلا سے کھانے پینے اور دیگر ضرورت کا سامان کندھوں پر اٹھاکر لاناپڑتاہے۔ جس اسقدر دشوار گزار راستوں میں لاتے ہوے سانس پھول جاتی ہے۔ سخت پریشان یہ عوام برسوں برس سے سڑک کی منتظر ہے۔جہاں ایک طرف ڈیجیٹل انڈیا بنانے کی بات کی جاتی ہے وہیں دوسری طرف دیہی علاقوں کے لوگ ابھی بھی چکھڑی بن کے لوگ سڑک پانی بجلی سے محروم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچوں کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔ وہ اتنا کٹھن کا راستہ طے کر کے منڈی اسکول کالج نہیں پہنچ پاتے ہیں اور گرمیوں کے موسم میں بھالو جیسے جنگلی جانوروں کا بہت خطرح ہوتا ہے۔ اس خطرے کے بیچ والدین اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے پاتے ہیں۔وہی اگر کسی شخص کو بھالوں کاٹ جاتا ہے تو اس کو گاؤں سے منڈی ہسپتال لے جانے میں چار سے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ تب تک اس کا سارا خون بہہ جاتا ہے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔اس سلسلے میں پنچائیت حلقہ چکھڑی بن کی خاتون سرپنچ تعظیم اختر کا کہناتھاکہ حقیقت میں پنچائیت چکھڑی بن ابھی بلکل سڑک کی سہولیات سے محروم ہے۔ لیکن گزشتہ چار سالوں سے لگاتار کوشش محنت اور مشقت اٹھانے کے باوجود یہاں پنچائیت کے ایک کونے تک سڑک کو لایاجاچکاہے۔جس پر کام شدومد سے جاری ہے۔اگے بھی بن بالا ناگاناڑی تک سڑک کے حوالے سے بھی انتظامیہ کی یقین دھیانی کے مطابق آئیندہ دو تین ماہ میں کام شروع ہوجایگا۔ اور چکھڑی بلیدہ کھیتاں تک بھی پلیرہ اے پلیرہ بی سے سڑک کی کھودائی ہوچکی ہے۔ جس کو اگے بھی آئیندہ وقت میں رقومات کی واگزاری کے بعد گلی کھیتاں بلیدہ تک پہونچایاجایگا۔پہلے 2017 میں پلیری سے پلیرہ اخر تک تین کلو میٹر سڑک پر تارکول ڈالی گی تھی اور پھر 2022 میں اور 2 کلومیٹر پر تارکول ڈالی گئی ہے۔ مزید کام شروع ہے۔ جس میں ڈنگے کنکرہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ سڑک کو ہموار بھی کیاجارہاہے۔
لوگوں کی مشکلات مصائیب اور علاقہ کی سڑک کی عدم دستیابی اور خستہ کے حالی کو لیکر جب بلاک ترقیاتی کونسل ممبر بلاک لورن سے بات کی انہوں نے بتایا کے گزشتہ چار سالوں کے دوران پنچائیت چکھڑی بن اور مہارکوٹ پنچائیتوں میں سڑک کو لیکر متعدد بار ضلع انتظامیہ کے ساتھ معاملہ اٹھایاگیا۔ مہارکوٹ کی سڑک کو منظوری مل گئی اور کام بھی جاری ہے۔ جبکہ چکھڑی تک سڑک کام بھی چل رہاہے۔بن اول،بن دوم،بن بالا،اور ناگاناڑی کے لئے بھی کوششیں جاری ہیں۔اپریل تک چکھڑی سڑک کا کام بھی شروع ہونے کا امکان ہے۔ کیوں کہ یہاں کی عوام کی دیرینہ مانگ سڑک ہے۔ جس کو پوراکرنے کے لئے بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔چکھڑی بن ناگاناڑی تک یہ گاوں صدیوں سے سڑک کی مانگ تو کرتے ہیں۔سیاسی اور سرکاری اعلی عہدداران اس عوام کے ساتھ کب تک وعدے کرتے رہیں گے؟ کیا یہ وعدے صرف ووٹوں اور اپنے مطلب تک ہی محدود رہتے ہیں؟ کیاہندوستان کے خزانہ میں چھکڑی بن ناگاناڑی سڑک کے لئے فنڈ نہیں؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر اس دور میں چکھڑی بن ناگاناڑی بن بالا،تک سڑک نکل جاتی ہے۔ تو یہاں کی ایک بڑی محصور آبادی راحت کی سانس لیں گی۔ بچواور بچیوں کی تعلیم کا اغاز ہوگا۔لوگ شہروں کے ساتھ جڑ کر اپنی زندگی کا رخُ بدل لیں گے۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب عوام نمائیندگان اس غریب عوام پر اپنی نظر شفقت کردیں۔ (چرخہ فیچرس)