کسی عظیم انسان نے کہا ہے، ” ماہ تمام کی چمک کو کتوں کے بے کار بھونکنے سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اس دنیا میں ہر کوئی شے اپنی فطرت کی وجہ سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔”
اگر درندوں کو یہ تصور ہو کہ انکی گرج سے آسمان کے ستاروں کا نور ماند پڑجائے گا تو یہ انکی خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔
صائب جی ہمارے گاوں کے ایک دانا اور بینا بزرگ تھے۔ انہوں نے اپنی عمر صرف دولت کمانے اور وہم پرستی پر برباد نہیں کئے تھے۔وہ ملک اور دنیا کے بارے میں صحیع معلومات رکھتے تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو بنا جانے صرف اپنی مہارت دکھانے کے لئے قومی اور بین الاقوامی سیاست پر جو انکا جی چاہے بولتے رہتے ہیں۔
صائب جی اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے ہم مزہبوں کی حالت زار پر بہت غمگین تھے۔ وہ کہا کرتے تھے : ” بیٹا ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم خود کو ملامت کرنے کے بجائے دوسروں کی تنقید کرکے خود کو گویا کسی پردے کے پیچھے چھپا لیتے جہاں کوئی ہمارے منہ پے لگے بدنما داغ نہ دیکھ سکے گا۔”
ان کا خیال تھا کہ ہمارے زوال کی سب سے اہم وجہ ہماری خود فریبی ہے۔ہم اپنے ارد گرد پھلنے والی ہر گندگی اور ہر تباہی کو دوسروں سے منسوب کرکے خود کو ہمیشہ اس وہم میں رکھتے ہیں کہ ہم اور ہمارا قائم کردہ نظام سب سے بہتر ہے۔ ہماری بہتری تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی خامیوں سے واقف ہوں۔
میں نے ایک دن غصے سے ان سے پوچھا :
"کیا صائب جی آپ بھی ذیادتی کرتے ہیں ۔دوسروں پے کبھی لب کشائی نہیں کرتے بس اپنوں کو ہی غلط ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں”
انہوں نے جس مسکراہٹ کے ساتھ بھیگی ہوئی آنکھوں سے جواب دیا میرے دل پر تو جیسے کوئی بجلی گر گئی، ” بیٹا غیروں سے کیا شکایت جب اپنی ہی ہمکو غیر تصور کرتے ہیں ؟ ہمارے اپنے مزہب کے لوگ ہمکو کافر کہتے ہیں اور اگر انکو موقعہ ملے تو یہ ہمارا نام و نشان مٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خود کو اعلیٰ کہتے ہیں مگر دل سے بتاو کیا انکے اعمال بھی اعلیٰ ہیں ؟
میں لاجواب ہوگیا ۔شرم سے سر جکا جارہا تھا مگر ذہن نے ہار نہ ماننے کا مشورہ دیا۔ میں نے پوچھا ، ” کیا یہ پرائے ہم سے اچھے ہیں ؟”
صائب جی نے پھر مسکرا کر اُسی قاتل ادا کے ساتھ شرافت بھرے لہجے میں کہا: ” ہمیں اپنے گھر کی فکر کرنی چاہیے بیٹا۔ پرائے آپ جنکو کہتے ہو وہ اپنے گھر کی فکر خود کریں گے۔ ہمیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے پرائے کا نہیں۔ اور کیا یہ ممکن نہیں کہ پرائے بھی ہماری اچھائی دیکھ کر خود بہ خود ہم سے متاثر ہوکر اچھا بننے کی کوشش کریں گے ؟”
یہ بات سُن کر میرا سر جیسے خود بہ خود اقرار میں انکی بات کا گواہی دینے لگا۔
کچھ دن بعد ایک ہتھیار بند ٹولی انکے خیالات کی وجہ سے ان کے درپے ہوئی۔ وہ صائب جی کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ اختلاف ہونا تو پھر بھی ٹھیک تھا مگر وہ سمجھتے تھے کہ اس دنیا میں جینے کا اصل حق صرف ان لوگوں کو ہے جو انکے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں اور انکے مسلک کی پیروی کرتے ہیں۔
انہوں نے اس بزرگ کی عمر کا بھی کچھ لحاظ نہیں کیا۔ وہ شاید اپنے ہتھیاروں کے نشے میں خود کو مالک کل تصور کرنے لگے تھے۔وہ کسی کو بھی اپنے طاقت کے نشے میں درد ناک تشدد کا نشانہ بناتے اور جسکو چاہتے ننگا کرکے گولیوں سے بھون کر رکھتے تھے۔ ہمدردی اور انصاف ان کی نظر میں یا تو دقیانوسی باتیں تھیں یا مغرب ذایدہ بے کار فلسفے کی نشانیاں تھیں۔وہ خون بہانے کو اور زور زبردستی کو اپنی بقا کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے۔
وہ اس بزرگ انسان کو گھر سے گھسیٹ کر ایک جنگل میں لے گئے وہاں اسے ایک دیودار کے ایک پیڑ کے ساتھ باندھ کر اس پر تشدد کرنے لگے۔
ان میں سے ایک نے جو انکا کمانڈر تھا اسکا گلا زور سے دبا کر کہا،
"آج تجھے تیرے گناہوں کی سزا ملے گی ”
جب اس نے صائب جی کا گلا چھوڑا تو وہ تڑپنے لگے۔بہت دیر تک کھانسے کے بعد جب وہ تھوڑا سنبل پائے تو اس نے بڑی مشکل سے اپنے خشک منہ کو کھول کر جواب دیا، ” بیٹا سزا اور جزا کا حق تو اللہ کو ہے۔آپ کیوں اپنی عاقبت کو داغدار بنا رہے ہو ؟”
کمانڈر نے یہ سن کر غصے سے گرج کر کہا،
” ہم اللہ کے سپاہی ہیں اور اسکے دین کے غلبے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں۔ تم جیسے لوگوں کی وجہ سے ہمارا دین خطرے میں ہے۔”
صائب جی سے مشکل سے بولا جا رہا تھا مگر وہ پوری عمر سچ کو ڈنکے کی چوٹ پر کہنے کے عادی تھے شاید اسی لیے مصیبت میں پڑے تھے۔ اس نے جواب دیا ،
"اللہ جیسی اعلی شان والی ذات کے دین کو ہم ناتواں سے بھلا کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟”
کمانڈر یہ بات سن کر اور بھڑک اٹھا اس نے ایک زور دار تھپڑ صائب جی کے ضعیف منہ پر مار کر چیخ کر پوچھا,
” تو ہمارے دین کی دعوت کو قبول کر ورنہ مرنے کے لئے تیار ہوجا”
صائب جی یہ عجیب دعوت اور اس کا ایسا انداز سن کر شاید بہت حیران ہوئے۔ جان بچانے کی خاطر انکو پتا تھا کہ خاموش رہنا ہی بہتر ہے مگر ان سے رہا نہ گیا۔ ان کو اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ یہ انکا اس دنیا میں آخری کلام ہوسکتا ہے مگر سب روشنی پھیلانے والے اندھیرے کی دھمکیوں سے اگر سہم کر خاموش ہوں تو دنیا ایک ظلمت کدہ بن جائے گا۔اس جزبے نے انکے خشک ہونٹوں کو آخری جنبش دی اور انہوں نے کہا ،
"میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم سب ایک ہی دین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لیکن اگر آپ مجھے خود سے الگ تصور کرتے ہیں تو دعوت کا یہ کون سا طریقہ ہے؟
کیا حضرت علی علیہ السلام کا وہ قول آپکو یاد نہیں کہ ” آپکی تبلیغ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپکی تلوار نیام میں رہے، زبان منہ میں رہے اور دلوں پے اثر بھی ہو ؟
وہ سب جیسے یہ پاک نام اور اعلی قول سن کر نفرت کی آگ میں اور زیادہ جلنے لگے۔انکا غصّہ جیسے انکی ذاتوں کو ہی جلانے لگا۔ صبر کرنا کم ذات کی نشانی نہیں ہے۔ان سب نے ہتھیار اٹھا کر خوب گولیاں برسائیں جیسے انکا نشانہ ایک ضعیف اور خالی ہاتھ شخص نہیں بلکہ دشمنوں کی ایک پلٹن تھی۔
صائب جی کی لاش کے ٹکڑے بھی لوگوں کو بڑی مشکل سے مل سکے
مگر انکی تصویر آج بھی لوگوں کے دلوں میں پیوست ہے۔ وہ جنوں نے خود فریبی سے ظلم کو انصاف تصور کیا تھا انکا نام لینا بھی آج لوگوں کو گناہ سے کم تصور نہیں ہوتا۔
کسی دانا نے کہا ہے کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو روشنی پھیلانے کے لئے اپنی زندگی قربان کر کے عظمت کا نشان بن جاتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اپنی ذات کو بے غیرتی اور خود فریبی کے جال میں پھنسا کر، نامرادی کی زندگی جی کر آخر کار عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔
ہلال بخاری
ہردوشورہ کنزر