رخسار کا ظمی( پونچھ)
رابطہ: 9350461877
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانی زندگی سے زیادہ قیمتی اس دنیا میں کوئی بھی شے نہیں، کیونکہ اس فانی دنیا میں خالق ِ دو جہان نے بنی نوع انسان کو ہی ایک اعلیٰ درجہ سے سرفراز کیا ہے۔ دنیا میں دیگر جتنی مخلوقات بھی ہیں وہ چاہئے جانور ہوں یاچرند پرند، تمام ہی انسان کے فائدہ کیلئے اور اس کے تابع ہیں۔ لیکن افسوس کے اشرف المخلوقات کا درجہ رکھنے والے انسان کی زندگی کو آج کئی طرح سے ہلکا لیا جا رہا ہے۔ حد تو اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ایک طرف اگر کوئی انسان کسی حادثے کا شکارہوا ہے، یعنی کہیں گرا ہو یا اس کی جان کو کوئی خطرہ ہے تو وہیں دوسری طرف کئی راہگیر نظر انداز کر کے گزر جاتے ہیں، کہیں تو قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے بھی اس مسئلہ میں تاخیر کر دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ سب چیزیں مرمت ہو سکتی ہیں۔مگر ایک انسان کی زندگی ختم ہو کر واپس نہیں آسکتی۔لہٰذا،اس پہلو پر ہم سب کو گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔اس میں بھی کوئی شک کی بات نہیں کہ حکومت نے انسانی زندگی اور اپنے شہریوں کوہر طرح کی حفاظت فراہم کرنے کیلئے کئی قوانین بنائے ہیں، جن پر عمل درآمدگی کیلئے با ضابطہ طور پرکئی ادارے بھی قائم کئے ہیں۔مگر کیا وہ ادارے اپنا کام دلجوئی سے کر رہے ہیں؟ کیا انسانی زندگی کی قدر و قیمت جان کر ان بے قدرے لوگوں پرشکنجہ کسنے میں پہل کرتے ہیں جن کی وجہ سے آئے روز یہ حادثات پیش آتے ہیں؟ ان سوالات کے جواب کیلئے ہم نے محکمہ نقل و حمل کے کام کاج پرایک نظر ڈالتے ہوئے محکمہ سے بھی جاننے کی کوشش کی کہ آخر کیوں آئے روز کوئی نہ کوئی سڑک حادثہ دیکھنے کو ملتا ہے،؟ آخر ترقی کی ان شاہراؤں پر کب تک یہ خونی رقص جاری رہے گا؟ کیا اس کی وجہ کہیں اور لوڈنگ تو نہیں؟اگر ہے تو اس پر قابو کیوں نہیں پا یا جا رہا ہے؟
ان سوالوں کے جواب کو لیکر راقم نے جب اے آر ٹی او، پونچھ جناب بشارت محمود سے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنا فرض پورے طریقے سے نبھاتے ہیں اور چلان بھی کاٹتے ہیں۔مگر ان مسائل پر عوام کو بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔انہیں اورلوڈ ہوئی گاڑی میں نہیں بیٹھنا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسکے باوجود بھی ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اورلودڈنگ نہ ہونے دیں۔وہیں اپنی بات چیت کے دوران انہوں نے گاڑیوں کے کرائے پر بھی بات کی اوراس سلسلہ میں میرے ساتھ کرائے کی ایک فہرست سانجہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام اس متعلق واقف نہیں ہے اور وہ ڈرائیوروں کو چھوٹ دیتی ہے جس کی وجہ سے ڈرائیور اُن سے دوگنا کرایہ بھی لیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ او لوڈ گاڑی کو فی سواری 2000روپے تک چلان بھی کیا جا تا ہے۔ مگر افسوس کہ اسکے باوجود بھی گاڑی والے یا ڈرائیور حضرات چند اضافی پیسے کمانے کے چکر میں سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں، جسکا نتیجہ ہمیں روز مرہ کی زندگی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن اس مسئلہ کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے یا اے آر ٹی او صاحب کی باتوں پر غور کیا جائے تو اس سب کے ذمہ دار نہ صرف ڈرائیور ہیں بلکہ عوام بھی ہیں۔ حد تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک گاڑی جس میں محض دس مسافر بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے اس پر پندرہ یا اس سے بھی زائد مسافر لاد لئے جاتے ہیں اور ہمارے عوام بھی بڑی خوشی سے سوار ہو جاتی ہے، جس سے ڈرائیوروں کو اور شے ملتی ہے اور ان کی لالچ مزید بڑھنے لگتی ہے۔ تاہم اسی لاپرواہی کی وجہ ہر دن کوئی نہ کوئی حادثہ سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔میں جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع کی ہی بات کرو اگر، جہاں تمام گاؤں سے شہر جانے والی گاڑیاں اورلوڈ ہوتی ہیں۔جبکہ میں پونچھ کے گاؤں قصبہ کی رہنے والی ہوں،روز کالج کی پڑھائی کے سلسلہ میں مجھے قصبہ سے پونچھ شہر کا سفر کرنا پڑتا ہے، جبکہ اس سفر کے دوران بچپن کی تعلیم سے لیکر کالج تک مجھے بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس دوران ہمیشہ گاڑیاں اورلوڈ ہو کر کے ہی اپنے سفر کیلئے روانہ ہوتی ہیں۔
وہیں جب اس متعلق میں نے اپنی ہی ہم جماعت دوست صائمہ سے پوچھا جو نونا بانڈی کی رہنے والی ہیں،انہوں نے بتایا کہ کرونا کے بعد گاڑیوں کا کرایہ دوگنا ہو گیا ہے، کرائے کی بچت میں بس اڈہ سے بیٹھنے کہ بجائے انہیں پہاڑی راستے سے پیدل سفر کر کے گاؤں بانڈی چیچیاں آنا پڑتا ہے اور وہاں سے وہ آٹو میں بیٹھ کر پونچھ جاتی ہیں۔صائمہ کہتی ہیں کہ وہ روز کی طرح آٹو میں سفرکر رہی تھی کہ ڈرائیور نے آٹو اور لوڈ کرنے کے بعد ایک مسافر کو آٹو کے دروازے میں بیٹھایا جب وہ آدمی وہاں بیٹھ نہ سکا تو وہ ایک مرد کی جھولی میں بیٹھنے لگا تھا تبھی ایک عورت کے اوپرگر پڑا۔ صائمہ نے بتایاجس آٹو میں آٹھ مسافر بیٹھنے کی جگہ ہو وہاں پندرہ مسافر بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے روز خوف میں سفر کرکے آنا پڑتا ہے اور شائد اسی وجہ سے بانڈی چیچیاں میں روز سڑک ٹوٹ جاتی ہے۔مگر افسوس کے چند مزید پیسے کمانے کے لالچ میں ڈرائیور مسافروں کے جان کی پرواہ بالکل نہیں کرتے۔ صائمہ کہتی ہیں کہ جب گاڑیوں کی چیکنگ کیلئے پولیس لگتی ہے تو یہ خبر پہلے ہی ڈرائیور کو پتہ چل جاتی ہے اور وہ آدھے راستے میں ہی سواریاں اُتار دیتا ہے اور جب چیکنگ ہو جاتی ہے تو پھر راستے سے مسافروں کو دوبارہ بیٹھا کر گاڑی اوور لوڈ کر دیتا۔وہیں جب میں نے اس حوالے سے سرنکوٹ کی رہنے والی روبینہ سے پوچھا جو روز پونچھ اسکول میں پڑھنے آتی ہیں، انہوں نے بھی یہی کہا کہ وہ بس سے سفر کرتی ہیں اور روز بس اور لوڈ ہو کر سرنکوٹ سے پونچھ کا سفر کرتی ہیں جسکی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور لوڈ ہونے کی وجہ سے سڑک بھی ٹوٹ جاتی ہے اور مزید حادثوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔تاہم ان سب باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پونچھ کے ہر گاؤں کی یہی کہانی ہے۔
وہیں جب میں نے اس متعلق اپنے استاد جی سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہ کہا کہ گاڑیاں بہت اور لوڈکی جاتی ہیں۔ان میں روز بچے بھی اسکول آتے ہیں جو زیادہ تر کھڑے ہوکرسفر کر تے ہیں۔جو بہت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پونچھ میں 90فیصدگاڑیاں ایسی ہیں جو بہت پرانی ہیں تو یہ بھی حادثے کا ایک بڑا کارن ہوسکتا ہے۔ تاہم اس پر بھی حکومت کو غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہیں اگر ان تمام باتوں اور اے آر ٹی او سے ہوئی گفت و شنید پر غور و فکر کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان حادثات کو کم کرنے کیلئے جہاں حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہیں عوام کو بھی چاہئے کہ وہ متعلقہ محکمہ اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کا بھر پور تعاون کر یں۔ (چرخہ فیچرس)