ریاض فردوسی۔
قرآن مجید میں اہل کتاب کا لفظ یہود اور نصاریٰ دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے،یہ الفاظ کبھی صرف یہودی کے لیے استعمال ہوا ہے اور کبھی صرف نصاریٰ کے لیے،لیکن اہل کتاب سے مراد یہود ہے یا نصاریٰ اس کا تعین آیت کے سیاق و سباق اور قرائن سے کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر سورہ النساء۔آیت نمبر 171 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے کتاب والو! مت مبالغہ کرو اپنے دین کی بات میں اور مت کہو اللہ تعالیٰ کی شان میں مگر پکی بات،یہاں اہل کتاب سے مراد نصاریٰ ہے۔
سورہ النساء آیت نمبر 153 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: آپ سے درخواست کرتے ہیں اہل کتاب کہ تو ان پر اتار لائے لکھی ہوئی کتاب آسمان سے۔یہاں اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں۔
سورۃ المائدۃ آیت نمبر 19 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:اے کتاب والو! آیا ہے تمہارے پاس رسول ہمارا، کھولتا ہے تم پر رسولوں کے انقطاع کے بعد کبھی تم کہنے لگو کہ ہمارے پاس نہ آیا کوئی خوشی یا ڈر سنانے والا سو آچکا تمہارے پاس خوشی اور ڈر سنانے والا اور اللہ پر چیز پر قادر ہے۔یہاں اہل کتاب یہود اور نصاریٰ دونوں ہی قوموں کے لیے آیا ہے۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ یٰبنی اسرائیل سے مراد صرف اور صرف یہودی ہیں کیونکہ وہ یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں،اس میں نصاریٰ شامل نہیں ہیں،پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد انکے حواریوں کو چھوڑ کر سینٹ پال کے تبلیغ کے ذریعہ جو لوگ بھی عیسی علیہ السلام پر ایمان لائے وہ لوگ زیادہ تر غیر یہودی (Gentiles) تھے جنہیںعام زبان میں عیسائی یا نصاریٰ کہا گیا۔
اناجیل اربعہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کے بعثت کے وقت بنی اسرائیل کے دو فرقے تھے۔ ایک Pharisees اور دوسرا Sadducees ۔
یہ دوسرا فرقہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ امام جصاص نے احکام القرآن میں نقل کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم ؓ کے عہد خلافت میں آپ کے کسی عامل یا گورنر نے ایک ایک خط لکھ کر یہ دریافت کیا کہ یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تورات پڑھتے ہیں اور یوم السبت یعنی ہفتہ کے دن کی تعظیم بھی یہود یوںکی طرح کرتے ہیں مگر قیامت پر ان کا ایمان نہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ حضرت فاروق اعظم ؓ نے تحریر فرمایا کہ وہ اہل کتاب ہی کا ایک فرقہ سمجھے جائیں گے۔ قرآن کریم کی بیشمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہل کتاب ہونے کے لئے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعویدار ہوں خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گمراہیوں میں جا پڑے ہوں۔ قرآن کریم نے جن کو اہل کتاب کا لقب دیا انھیں کے بارے میں یہ بھی جا بجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔یحرفون الکلم عن مواضعہ۔اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان حالات وصفات کے باوجود قرآن نے ان کو اہل کتاب قرار دیا۔یہود و نصاریٰ اہل کتاب میں داخل ہیں خواہ وہ کتنے ہی عقائد فاسدہ اور اعمال سیہ میں مبتلا ہوں۔
سورہ البقرہ،سورہ النساء،سورہ المائدہ وغیرہ میں اہل کتاب کے مذہبی عقیدے اور نظریات بیان ہوئے ہیں۔علاوہ ازیں انکے بالخصوص یہودیوں کی سرکشی، شرارتیں، بدمعاشی، ضد اور ہٹ دھرمی، عناد،
رسول ﷺ کے خلاف سازشیں وغیرہ بھی بیان ہوئے ہیں۔باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے متعلق فرمایا کہ سبھی اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں۔سورہ آل عمران آیت نمبر 75 میں اہل کتاب کے دو گروہوں کے متضاد خیالات اور اعمال کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اہل کتاب میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ اگر ان کے پاس انبار کا انبار مال امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تو وہ مانگنے کے ساتھ ہی اس کو مالک کو لوٹا دیتے ہیں اور ان ہی میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھ دیا جائے تو وہ مانگنے پر بھی اہل امانت کو امانت نہیں لوٹاتے یہاں تک کے اس کے سر پر کھڑا نہ ہو جائے۔ وہ ایسی حرکت اس سبب سے کرتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ غیر اہل کتاب مثلاََ قریش کا مال چرا لینا یا چھین لینا سب حلال اور جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس دعویٰ کی تکذیب فرماتاہے۔
اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال نہیں کیا محض تراشیدہ دعویٰ ہے۔ ومن اھل الکتاب من ان تامنہ بقنطار یودہ الیک)
اس آیت میں بعض لوگوں کی امانت دار ہونے پر مدح کی گئی ہے۔ اس سے کسی غیر مسلم کے اچھے اوصاف کی مدح کرنا ثابت ہوتی ہے۔ اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام تعصب اور تنگ نظری سے کام نہیں لیتا بلکہ وہ کھلے دل سے اپنے مخالف کے ہنر کی بھی اس کے مرتبہ کے مطابق داد دیتا ہے۔
اگے اسی سورہ آیت نمبر 110 میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ حضور ﷺ پر ایمان لاکر مومن ہو گئے لیکن اکثر لوگ کافر ہی رہ گئے کیونکہ وہ لوگ حضور ﷺ ہر ایمان نہیں لائے۔
اسی بنا پر اللہ تعالیٰ اگے آیت نمبر 113 میں فرماتا ہے کہ سبھی اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہوتے(لَیسُوا سَوَآئً) اور ان اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے متعلق تفصیل سے یہ بیان ہوا کہ یہ اہل کتاب سب برابر نہیں بلکہ ان اہل کتاب میں ایک جماعت وہ بھی ہے۔ جو دین حق پر قائم ہیں اور اللہ کی آیتیں یعنی قرآن اوقات شب میں پڑھتے ہیں اور وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور اللہ پر اور قیامت والے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور دوسروں کو نیک کام بتلاتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں دوڑاتے ہیں اور یہ لوگ اللہ کے نزدیک شائستہ لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور یہ لوگ جو نیک کام کریں گے، اس کے ثواب سے محروم نہ کئے جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو خوب جانتاہے اور یہ لوگ چونکہ اہل تقویٰ ہیں تو حسب وعدہ جزاء کے مستحق ہیں۔اللہ تعالیٰ اہل کتاب میں سے جو لوگ اہل ایمان ہیں اس کی تعریف آیت نمبر 199 میں کرتا ہے: اور بعض اہلِ کتاب ایسے بھی ہیں جواللہ پر اور اس کتاب پر جو تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے آگے عاجزی کرتے ہیں اور اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہیں لیتے یہی لوگ ہیں جن کا صلہ ان کے پروردگار کے ہاں تیار ہے اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے (سورہ آل عمران کی ساری آیت ہے)
اسی طرح سورہ النساء آیت نمبر 162-160 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ منع کرنے کے باوجود طرح طرح کے حیلے کر کے سود خوری کرتے تھے اور جس طرح بن پڑتا لوگوں کے مال غصب کرنے کی تاک میں لگے رہتے تھے اور بہت سے لوگوں کو دین حق کو قبول کرنے سے روکتے تھے اور اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ نے یہ کام حرام کئے ہیں جرأت سے انہیں کر گذرے تھے۔
جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر جو پاک چیزیں پہلے حلال تھیں اسے ان لوگوں پر حرام کر دیا۔ اس کے بعد ہی اللہ تعالیٰ ان یہودیوں میں سے ہی ایک گروہ کی تعریف اور توثیف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ لوگ علم میں پختہ ہیں اور ایمان والے ہیں اور جو کتاب حضور ﷺ پر نازل ہوئی یعنی قرآن اور جو کتابیں پہلے نازل ہوئی مثلاً تورات اور انجیل سب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور روز آخرت کو مانتے ہیں۔ اور پھر ایسے لوگوں کے ایمان اور اعمال صالحہ کے سبب اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ ان کو ہم عنقریب اجر عظیم دیں گے۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام، حضرت ثعلبہ بن سعید، زید بن سعید، حضرت اسید بن عبید ر ضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں، جو اسلام قبول کرچکے تھے اور حضور ﷺ کی نبوت کو مان چکے تھے۔
رسالت مآب ﷺ کے عہد مبارک میں مسلمانوں کے تین حریف تھے: مشرکین مکہ، یہود اور نصاریٰ؛ ان تین اقوام میں رسالت مآب ﷺ اور صحابہ کرام ؓکے سب سے شدید دشمن مشرکین اور یہود تھے۔
ان دو قوموں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے سب سے قریب دوست نصاریٰ کی ایک خاص جماعت تھی۔ یہودیوں اور مشرکین کی طرح ان کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے نفرت اور عداوت نہیں تھی، کیونکہ یہ لوگ خدا ترس اور حق پرست تھے۔ وہ تارک الدنیا تھے۔ ان کے اندر تواضع اور خاکساری کے اوصاف موجود تھے۔ان کے دل نرم تھے اور ان کے اندر تکبر نہیں تھا۔ ایسے ہی اوصاف کے حاملین نصاریٰ کی ایک جماعت کا سورہ المائدہ، آیت نمبر 82 میں ذکر کیا گیا ہے: آپ پائیں گے سب لوگوں سے زیادہ دشمن مسلمانوں کا یہودیوں کو اور مشرکوں کو، اور آپ پائیں گے سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں کے ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس واسطے کہ نصاریٰ میں عالم ہیں اور درویش ہیں اور اس واسطے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔
جمہور مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیات نجاشی اور اس کے بھیجے ہوئے وفد کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔مسلمانوں کی ایک جماعت قریش کے مظالم سے تنگ آکر اپنا وطن مکہ چھوڑ کر حبشہ چلے گئے۔پہلی مرتبہ گیارہ حضرات حبشہ کی طرف نکلے، جن میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی زوجہ محترمہ رسول کریم ﷺ کی صاحبزادی سیدہ حضرت رقیہ ؓ بھی شامل تھیں۔
اس کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کی سر کردگی میں مسلمانوں کا ایک بڑا قافلہ جو عورتوں کے علاوہ بیاسی مردوں پر مشتمل تھا حبشہ پہنچ گیا، شاہ حبشہ اور وہاں کے باشندوں نے ان کا شریفانہ استقبال کیا اور یہ لوگ امن و عافیت سے وہاں رہنے لگے۔نجاشی بادشاہ اور ان کے اصحاب حبشہ میں قرآن سن کر روئے اور مسلمان ہوگئے۔ پھر تیس آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قرآن سن کر رو دئے اور اسلام قبول کیا۔ان آیتوں کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ غیر مسلموں میں چاہے وہ یہودی ہوں یا نصرانی یا مشرک ہو جو لوگ بھی اچھے اوصاف کے حامل ہوں ان کی مدح کی جائے۔ ایسے لوگوں سے اچھے تعلقات بنایا جائے۔اس دنیا میں ہر قوم میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں۔اسلام میں دشمنی کا معیار یہ نہیں ہے کہ فلاں قوم مسلمان نہیں ہے بلکہ اس قوم یا اس قوم کی کسی جماعت کے خراب اوصاف ہوتے ہیں۔اسلام ایک عدل پسند اور حق پسند دین ہے۔ اسلام کی تعلیمات یہ ہے کہ لوگوں کے بارے میں ہماری رائے اور خیالات عدل اور انصاف پر مبنی ہو۔ایسا نہ ہو کہ نفرت، بغض اور حسد کی وجہ سے ہم غیر مسلموں کے اچھے اوصاف کی ستائیس کرنا چھوڑ دیں، یہ سراسر ظلم ہوگا۔ ہم ایک داعی قوم ہیں اور ہمارے دلوں میں مدعو قوم کے لیے نفرت اور بغض نہیں ہونی چاہیے ورنہ ہمارا دعوتی کام فیل ہو جائے گا اور پھر ہم نہ لوگوں کو معروف بات بتا سکیں گے اور نہ ہی منکر باتوں سے ان کو روک سکیں گے۔شیطان تو چاہتا ہے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے مابین دشمنی اور نفرت بنی رہے تاکہ دین کے تبلیغ کا کام شروع ہی نہ ہونے پائے اور کوئی بھی غیر مسلم مسلم نہ بنیں۔
سورہ المائدہ آیت نمبر 13 میں مسلمانوں کے لیے غیر قوموں بشمول یہودی اور نصرانی سے متعلق رسول ﷺ کے واسطہ سے ایک مفید ہدایت مذکور ہے: (آیت) وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَایِنَۃٍ مِّنْہُمْ۔ یعنی آپ ہمیشہ ان کی (یعنی یہودیوں کی) کسی دغا فریب پر مطلع ہوتے رہیں گے(آیت) ’’علی خآئنۃ‘‘سے مراد جھوٹ اور فجور ہے۔
ان کی خیانت یہ تھی کہ انہوں نے اس عہد کو توڑا جو ان کے اور رسول ﷺ کے درمیان تھا اور یہود کا مشرکین کی مدد کرنا تھا جب رسول ﷺ نے ان سے جنگ لڑی تھی جیسے جنگ احزاب وغیرہ اور اس کے علاوہ ان کا رسول ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ تھا اور آپ ﷺ کی گستاخیاں کرنا تھا۔ پھر رسول ﷺ کو یہ ہدایت دی گئی کہ (آیت) فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ یعنی آپ ان کو معاف کریں اور ان کی بدعملی سے درگزر کریں۔ ان سے منافرت کی صورت نہ رکھیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے بداعمالیوں اور بداخلاقیوں کے باوجود اپنے طبعی تقاضے پر عمل نہ کریں یعنی منافرت کا برتاؤ نہ کریں۔حضرت عمر فاروق ؓ سے مروی ہے کہ جو تجھ سے اللہ کے فرمان کے خلاف سلوک کرے تو اس سے حکم الٰہی کی بجا آوری کے ماتحت سلوک کر۔اس میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ ممکن ہے ان کے دل کھچ آئیں، ہدایت نصیب ہوجائے اور حق کی طرف آجائیں۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے ان متذکرہ آیات سے بیشتر لوگ الا ما شا اللہ ناواقف اور بے خبر ہیں اور نہ ہی ان آیتوں کا بیان ہوتا ہے۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ یہودی ایک مغضوب قوم ہے، وہ قاتلینِ انبیاء ہے۔وہ ذلیل اور ملعون قوم ہے۔ نصاریٰ ایک گمراہ قوم ہے۔آدھی ادھوری علم کی وجہ سے قوموں کے بارے میں ہماری رائے اور خیالات غیر متوازن ہوتے ہیں۔