رنکو کماری(مظفر پور، بہار)
کسی بھی معاشرے اور ملک کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب زیادہ سے زیادہ شہری تعلیم یافتہ ہوں۔ تعلیم انسانی ترقی کی پہلی شرط ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں ہندوستان کی پوزیشن آج تک تشویشناک ہے، اس کی ایک اہم وجہ تعلیم کی سطح میں گراوٹ ہے۔ آئین ساز باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ تعلیم شیرنی کا دودھ ہے، جو اسے پیے گا وہ دھاڑے گا۔ ہندوستانی سماج کا ایک خاص طبقہ سماجی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر خوشحال ہے، اس لیے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ تعلیم ہے، لیکن ملک کا ایک بڑا طبقہ آج بھی پسماندہ ہے کیونکہ وہ تعلیم سے محروم تھا۔ تاہم گزشتہ چار پانچ دہائیوں میں تعلیم کے حوالے سے لوگوں میں بیداری بڑھی ہے۔ محروم طبقات میں تعلیم حاصل کرنے کا نیا شعور پیدا ہوا ہے۔ حکومتی، غیر سرکاری کوششوں اور نئے شعور کے عروج کا نتیجہ ہے کہ اب کچی آبادیوں کے بچے بھی اسکول کالج جانے لگے ہیں۔ وہ خود بھی پڑھ رہے ہیں اور اپنے معاشرے کو نئی سمت بھی دے رہے ہیں۔ یہاں میں ایسے ہی ایک انوکھے اقدام پر بات کرنا چاہونگی، جو تعلیم کے ذریعے پیدا ہونے والے شعور کا ایک متاثر کن اظہار ہے۔ تو آئیے، آج میں آپ کو ایک چھوٹے سے استاد سے ملواتی ہوں، جس کا نام بڑا نہیں ہے، لیکن اس کا کام بڑا ضرور ہے۔ نہ کوئی بینر، نہ کوئی پبلسٹی اور نہ ہی کوئی دکھاوا۔ لیکن ہاتھ میں قلم اور دل میں طوفان ہے۔ ایک خستہ حال جھونپڑی میں بھی اس کے اندر تعلیم کا شعلہ جلانے کا جذبہ ضرور ہے۔ اس ننھی سی ضد کا نام ہے ”رادھا“ جو خود بھی بارہویں جماعت کی طالبہ ہے اور چھوٹے غریب بچوں کی ٹیچر بھی ہے۔
بہار کے ویشالی ضلع کے جنداہا بلاک کے رسال پور پورشوتم پنچایت کے تحت رام پور چکلالہ گاؤں کی 16 سالہ رادھا کماری نے اپنے گاؤں کے چھوٹے غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ جبکہ رادھا خود انٹر کی طالبہ ہے۔ والد دنیش ساہنی مچھلی پکڑنے اور بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ رادھا کی ماں منجو دیوی ایک گھریلو خاتون ہیں۔ رادھا کے اس جذبے کو پورا گاؤں سلام کرتا ہے۔ آس پاس کے دیہاتوں میں بھی اس اقدام کا کافی چرچا ہو رہی ہے۔ رادھا نے بتایا کہ وہ آئین ساز باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی سوانح عمری پڑھ رہی تھی، جس میں لکھا تھا کہ انہیں پڑھائی کے دوران کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ اس وقت ذات پات اور اونچ نیچ کی تفریق بھی اپنے عروج پر تھی۔ ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اپنے گاؤں کے غریب اور محروم معاشرے کے بچوں کو پڑھائیں۔ اسکول سے واپسی کے بعد میں نے اپنے گاؤں کے بچوں کو بلایا اور کھیلنے کے نام پر سب کو متحرک کرنا شروع کیا اور پھر کھیل کود پڑھانا شروع کیا۔میں روزانہ 3:30سے شام 5:30بجے تک بچوں کو پڑھاتی ہوں اور پھر رات کو اپنا ہوم ورک مکمل کرتی ہوں۔ رادھا بتاتی ہیں کہ اس وقت ان کے پاس پڑھنے والے بچوں کی تعداد 50 کے قریب ہے، جن میں لڑکیاں زیادہ ہیں۔ گاؤں کی دسویں جماعت کی طالبہ سوہانی بھی رادھا کے اس نیک کام میں اس کی مدد کرتی ہے۔ سوہانی کے والد راجارام ساہ ایک کسان ہیں، جبکہ ماں نیتو دیوی ایک گھریلو خاتون ہیں۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ جب رادھا اور سوہانی آس پاس نہیں ہوتیں تو گاؤں کی ایک تعلیم یافتہ بہو گنجا دیوی کبھی کبھار بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ رادھا کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اسے پڑھنے اور پڑھانے کا اتنا شوق ہے کہ اسکالر شپ میں ملنے والے اٹھارہ سو روپے میں سے اس نے اپنے لیے ایک ہزار روپے میں کاپی کتابیں خریدیں اور باقی 800 روپے میں کاپی پینسل خرید کر ان غریب بچوں میں تقسیم کر دیا۔ پانچ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر کی رادھا کے اس کام کی پورے علاقے میں خوب ستائش ہو رہی ہے۔
رادھا کے والد کا کہنا ہے کہ مجھے خوشی ہے کہ میری بیٹی خود پڑھتے ہوئے اپنے معاشرے کے غریب بچوں کو پڑھا رہی ہے۔ میں نے اپنی زندگی مچھلی بیچ کر گزاری ہے، لیکن میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹی بھی ایسی ہی زندگی گزارے۔ رادھا نے خود پڑھتے ہوئے گاؤں کے غریب بچوں کو بھی پڑھایا تاکہ ہمارا معاشرا بھی ترقی کر سکے۔اس سلسلے میں ایک بچے کی والدہ گنجا دیوی نے بتایا کہ یہاں پر پڑھنے والے تمام بچے کم آمدنی والے گھرانوں سے ہیں، جو پہلے پورا دن کھیل کود میں گزارتے تھے۔ اب یہ بچے رادھا کی کلاس میں موجود رہتے ہیں۔ رات کو ہوم ورک بھی کرتے ہیں۔ گاؤں کے ایک شخص رویندر بیتھا نے کہا کہ ہم گاؤں والے رادھا کے کام سے بہت خوش ہیں۔ شیبو پاسوان کا کہنا ہے کہ رادھا کے دل میں یہ احساس ہے کہ یہاں کے بچوں کو پڑھنا چاہیے اور گاؤں کی ترقی ہونی چاہیے۔ ہم نے بی ڈی او صاحب سے بھی کہا ہے کہ انتظامیہ رادھا کی پہل میں مدد کرے۔ رادھا کی مدد کے لیے آگے آنے والے سماجی کارکن ڈاکٹر ارجن داس نشانت نے کہا کہ ہر دلت محروم بستی میں تعلیم اور بیداری کے سلسلے میں پہل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نظام حکومت کے ذریعے تعلیم کی روشنی کچی بستیوں تک صحیح طریقے سے نہیں پہنچ رہی ہے۔ بلاشبہ ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ہی ہر گاؤں میں تعلیم کا شعلہ جل سکے گا۔ کیونکہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے بعد بھی بہار جیسی ہندی ریاستوں میں اسکولی تعلیم کا نظام ہموار اور معیاری نہیں ہوسکاہے۔ اس کی بہت سی وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ اگر ہم بہاراوریو پی کے تعلیمی نظام کا موازنہ تعلیم میں سرفہرست ریاستوں جیسے کیرالہ، تمل ناڈو، دہلی، پنجاب سے کریں، تو بات واضح ہو جاتی ہے۔
2022 میں یو این ڈی پی کے ذریعہ شائع کردہ 2021 ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں ہندوستان کا درجہ 132 ہے۔ یہ انڈیکس ملک کی صحت کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کی حالت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس معاملے میں ہم کتنے پسماندہ ہیں۔ ہندوستان میں اسکول کی تعلیم کے متوقع سال 11.9 ہیں اور اسکول کی تعلیم کے اوسط سال 6.7 ہے۔ نیتی آیوگ کی اسکول ایجوکیشن کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی کے مطابق، پورے ملک میں اسکولی تعلیم کے معیار میں وسیع فرق ہے۔ یہ فرق کسی قوم کے لیے تعلیمی شعبے کی اجتماعی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہندوستان کی 2011 کی مردم شماری کے مطابق، بہار کی شرح خواندگی 63.82 فیصد ہے، جس میں مرد خواندگی کی شرح 73.39 فیصد اور خواتین کی شرح خواندگی محض53.33 فیصد ہے۔ یہ قومی اوسط سے بہت کم ہے جو کہ مجموعی طور پر 72.9 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بہار میں تعلیم کے میدان میں ترقی کے لیے ابھی بھی سرکاری اور غیر سرکاری کوششوں کی بہت ضرورت ہے۔ خاص طور پر دلت پسماندہ سماج کو اب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور یہ صرف حکومت پر بھروسہ کرکے ممکن نہیں ہے۔ رادھا جیسی نوجوان لڑکی اور لڑکوں کو آگے بڑھنے اور اس طرح کی چھوٹی کوششوں کے ذریعے بھی معاشی اور سماجی طور پر کمزور طبقات میں تعلیم کے بارے میں بیداری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ (چرخہ فیچرس)