شازیہ اختر( چکھڑی،منڈی پونچھ)
وزیرے اعظم نے ہندوستان بھر میں شعبہ صحت کو فعال بنانے کیلئے مختلف قسم کے اقدام اٹھائے ہیں تاکہ عوام تک صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی جا سکے۔اس کے لئے مختلف اسکیمیں بھی چلائی جا رہی ہیں۔ لیکن اگر اپنے وطن عزیز ہندوستان کے دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو ذمینی حقائق اس کے بلکل برعکس نظر اتے ہیں۔ چونکہ صحت کا نظام فعال ہونا اس شعبہ کے تحت کام کرنے والے افراد اور مراکز کو تمام تر لوازامات سے لیس ہونا از حد ضروری تھا۔ بدقسمتی سے یہ نظام اگر شہروں میں بہتر ہو تو اس کا دیہی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ چونکہ زندگی بچانے کے لئے اگر ایک سیکنڈ کارگر بن گئی تو جان بچ سکتی ہے۔ورنہ ہزار ترکے بیکار ہوتے ہیں۔ہندوستان کی سب سے خوبصورت اور منفرد حیثیت رکھنے والاجموں وکشمیر جس کو ملک کا تاج بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اسی تاج کے محکمہ صحت کی حالت خراب ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اسے خود دوا کی ضرورت ہے۔اگر صحت مرکز کی حالت ایسی ہوگی تویوٹی کے باقی محکمہ کا کیا حال ہوگا؟ جموں وکشمیر کے متعدد اضلاع کے دیہی علاقے آسج بھی محکمہ صحت کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ضلع پونچھ جو جموں و کشمیر کا سرحدی اور پسماندہ ضلع کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔اسی ضلع سے 30 کلو میٹر دؤر پنچائیت چکھڑی ہے،جہاں آج بھی شعبہ صحت زبو حالی کا شکار ہے۔اس مرکز کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ اسے ہلتھ سنٹر کہا جائے یا کھنڈر گھر؟
اس پر مزید بات کرتے ہوے مقامی معمر قریب سلیم بیگم،جن کی عمر52سال ہے، نے کہاکہ ایک طرف خواتین کو برابر کے حقوق دینے کی بات کی جارہی ہے۔ وہیں دوسری جانب یہاں دیہی اور پسماندہ علاقہ چکھڑی کی خواتین بے بس ولاچار نظر ارہی ہیں۔ یہاں خواتین کے لئے مکمل علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سب ضلع ہسپتال منڈی جاناپڑتاہے۔وہ بھی راستہ بہترنہیں ہونے کی وجہ سے تین چار کلومیٹرانہیں پیدل کندھے پر اٹھاکر لے جایاجاتاہے۔ایسے میں بارش اور برفباری کے دنوں میں صورت حال کیا ہوتی ہوگی؟انہیں کس خطرے اور مشکل سے ہسپتال پہنچایا جاتا ہوگا۔اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ منڈی سے قریب دس کلومیٹر دور یہ گاوں دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت کے حوالے سے شدید پریشانیوں سے دوچار ہے۔ہسپتال کے ساتھ ساتھ یہاں سڑک کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔سڑک نہیں ہونے کی وجہ سے مریض کو ایمبولنس کے زریعہ ہسپتال تک پہونچانا مشکل ہے۔ ایسے میں یہاں پر سہولیات دیناانتظامیہ کا فرض بنتاہے۔اسی معاملے کو لیکر سید شاہ، جن کی عمر 45 سال ہے،کا کہنا ہے کہ علاقہ چکھڑی میں سب سنٹر توموجودہے۔لیکن ایک کچے مکان میں برسوں سے قسم پرسی کی حالت میں چل رہاہے۔ نہ یہاں بجلی، نہ پانی، نہ بیت الخلاء اور نہ ہی ڈاکٹروں ونرسوں کے بیٹھنے یا مریضوں کو لٹانے اور علاج معالجہ کے لئے جگہ ہے۔جس کی وجہ سے خواتین بچے بزرگ اور نوجوانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔کبھی کوئی پاؤں پھسل کر زخمی ہو جائے یا کوئی جنگلی جانور کاٹ جائے جیسے بھالوں یا کسی اور وجہ سے زخمی ہو جائے تو اسکو یہاں سے منڈی 10 کلو میٹر دؤر ضلع اسپتال پہنچایا جاتاہے۔جہاں پلیرہ تک پیدل سفر کرنے تک اس کا خون بھی بہہ جاتا ہے اور وہ راستے میں ہی دم توڑ جاتاہے۔ کئی قیمتی جانیں اسی طرح تلف ہوئی ہیں۔
ہلتھ سنٹر چکھڑی کی نامکمل عمارت اور کچی بوسیدہ کرایاکی عمارت میں نظام کے حوالے سے بلاک میڈکل آفیسر منڈی نصرت النساء کا کہنا ہے کہ ہم انتھک کوشش کررہے ہیں کہ جلد عمارت تیار ہوجاے۔جہاں پر تمام تر سہولیات کو اچھی طرح بہم رکھاجاے۔چکھڑی ہلتھ سنٹر کی عمارت تیار کی جاے تاکہ میڈیکل اسٹاف کو بیٹھنے کا انتظام ہو اور یہاں ہر قسم کی سہولیات دی جاے۔ آئیندہ کچھ ہی ماہ میں اس عمارت کو مکمل کر لیاجایگا۔جبکہ مزید ٹھیکدار کو اس حوالے سے متحرک کیاجایگاتاکہ یہاں عملہ کے ساتھ تمام تر بنیادی سہولہات بہم رکھیں جائیں۔جتنی محنت ہم سے ہوتی ہے ہم کرتے ہیں۔ لیکن اس شعبہ صحت میں عوام کی خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس غریب علاقہ کے لوگوں بلخصوص خواتین کے درد کو سمجھتے ہوئے ہلتھ سنٹڑ کی حالت کو بہتر کیاجاے تاکہ ملک کے عظیم پارلیمنٹ میں خواتین کو حقوق دیے جانے کا نعرہ سچ ہوسکے!چھکڑی کی عوام کو امید ہے کہ ایک دن ان کے دکھ درد کا ازالہ ہوگا۔یہاں کی عوام برسوں سے اپنی اواز کو بلند کررہی ہے۔ صحت ہے تو سب کچھ ہے۔ بس اس صحت مرکزکی حالت پر زرارحم کریں۔ (چرخہ فیچرس)