ہلال بخاری
بابا بندوق ایک دور دراز قبائلی علاقے کا ایک عجیب اور مزاحیہ کردار تھا۔اگر چہ خود اسکو مزاح سے دلچسپی نہیں تھی۔لیکن اس کا انداز میری نظر میں کسی مزاحیہ ٹی وی سیریل سے زیادہ نہ تھا۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کو گناہ سمجھتا تھا اور ان ویکسینوں کو جن سے لاکھوں جانیں تلف ہونے سے بچ پاتی ہیں یہودیوں کی چال تصور کرتا تھا۔وہ اپنی تبلیغ میں ہزاروں لوگوں کے سامنے کہتا تھا کہ یہودیوں نے یہ ویکسین ہماری
مردانہ طاقت کو گھٹانے اور زنانہ طاقت کو بڑھانے کے لئے تیار کیے ہیں۔اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی جوکر سے کم نہ تھا۔
وہ ڈر اور خوف میں دلچسپی رکھتا تھا۔وہ بندوق کے زور سے ہی اپنے ہر حکم کو لاگو کراتا تھا اسی لئے اسے بابا بندوق کا لقب ملا تھا۔اس کا چہرا ڈراونا لیکن اسکی سوچ مزاحیہ تھی۔اس کی ہر ادا کمزور دلوں کو ڈراتی اور ہمت والوں کو ہنساتی تھی ۔ یہ حضرت بھی ہٹلر کی طرح اپنی نسل اور قوم پر بہت فخر کرتا تھا۔ اگر چہ ایک چھوٹے سے قبائلی علاقے کے ایک چھوٹی سی جماعت کا ایک ادنیٰ سا کمانڈر تھا لیکن بیرونی ایجاد کردہ بندوق کی وجہ سے خود کو ناقابل شکست تصور کرتا تھا۔
یہ اپنی اس معمولی بندوق کے زور پر ساری دنیا کو غلام بنانے کا خواب دیکھتا تھا جسکو اگر کھول کر رکھ دیا جاتا تو یہ اس کو جوڑنے میں کامیاب نہ ہوتا۔
بابا بندوق کا خیال تھا کہ بندوق ہی اس کے دین کا سب سے بہترین پاسبان ہے اور وہ اس کے بنا اپنے مذہب کو ادھورا سمجھتا تھا۔
بابا بندوق اور اسکی خود ساختہ فوج نے خانہ جنگی میں فتح حاصل کر کے ایک دوسرے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ وہ اس علاقے میں بھی اپنے دقیانوسی قوانین کو نافذ کرنے لگا۔اس علاقے میں ادریس خان نام کا ایک نہایت ہی محنتی اور ایماندار استاد رہتا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی باقی لڑکیاں بھی آزادی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔ بابا بندوق کےمطابق کسی بھی لڑکی کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ اسکول جایں۔ وہ مانتا تھا کہ انگریزی اسکولوں میں لڑکیوں کو بے حیائی سکھائی جاتی ہے۔ وہ تمام عورتوں کو کم عقل اور باعث شرم تصور کرتا تھا اور اس کا حکم تھا کہ عورتین گھر کی چار دیواری سے باہر ہرگز نہ نکلیں۔اگر کوئی عورت اس حکم کی خلاف ورزی کرتی تو اس پر سر عام کسی چوراہے پر کوڑے برسانے کو وہ باعث شرم نہ سمجھتا تھا۔
ادریس خان کا یہ ارمان تھا کہ اس کی اکلوتی بیٹی تعلیم حاصل کر کے ایک بہترین زندگی گزارے۔
بابا بندوق نے علاقے کا انتظام سنبھالا تو پہلا حکم یہ صادر ہوا کہ علاقے کے تمام اسکول جہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں فوراً بند کئے جائیں۔
ادریس خان نے لوگوں کو اس حکمنامے کے خلاف آواز بلند کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کا ماننا تھا کہ تعلیم ایک بنیادی ہے اور کسی کو اس کے جنس کی وجہ سے تعلیم سے محروم کرنا جہالت کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کا ماننا تھا کہ وہ بابا بندوق اور اسکی ٹولی کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہوگا کہ سب کو برابری سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
بابا بندوق کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس علاقے کا ایک استاد اس کی نافرمانی کر رہا ہے تو اس نے اسے مارنے کے لئے اپنی فوج بھیج دی۔
اسکی فوج آندھی کی طرح ادریس خان کے اسکول میں داخل ہوئی اور اس کو تلاش کرنے لگی۔ جب اسکول کے اساتذہ اور طلاب کو ادریس خان کی جان کے خطرے کا احساس ہوا تو انہوں نے ادریس خان کو کہیں پر چھپایا۔ اس ظالم فوج نے ادریس خان کا دفاع کرنے والے نہتے استادوں اور طلباء کو پہلے تشدد کا بنایا۔ جب انہوں نے پھر بھی ادریس خان کا پتہ بتانے سے انکار کیا تو انہوں نے کچھ کو زندہ جلادیا اور کچھ کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا۔
ادریس خان اور اسکی کمسن بچی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ وہ جب اپنا حال دنیا کو بتانے لگے تو بابا بندوق کو اس بات پر بہت غصّہ آیا اور وہ چیخنے لگا کہ اس کے خلاف محظ پروپیگنڈا چلایا جارہا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے کچھ حامیوں نے اس کے ظلم کو انصاف اور دوسروں کے ظلم کو ناانصافی تصور کیا حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ظلم ظلم ہے اور اگر وہ اپکے اپنوں سے سرزد ہو تو وہ بدترین ظلم ہے کیونکہ انصاف کی امید ان سے ہی ہوتی ہے جو خود کو راہ حق کے ساتھیوں میں شمار کیا کرتے ہیں۔
ہلال بخاری(ہردوشورہ کنزر )