ہمارا معاشرہ رسم و رواج کے بندھن میں اس طرح پھنس چکا ہے کہ ان سے خلاصی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہیں کیوں کہ معاشی دوڑ میں لوگوں نے جہاں اپنا معیار زندگی تبدیل کردیا وہیں اپنے رسم و رواج سے ہٹ کر دوسروں کو اپنانے میں بھی محو ہونے لگے اور وہ رسم و رواج اپنی تہذیب و روایات کی پامالی ہے۔ جموں کشمیر کی تہذیب اور روایات عالمی سطح پر منفرد حیثیت حاصل تھی لیکن جب سے یہاں مختلف تہذیبوں کی یلغار ہوئی تب سے یہاں کے رسم و رواج بھی بدل گئے اور اب یہاں لوگ ایسے رسومات میں لت پت ہوئے ہیں کہ ان رسومات کو انجام دینے والے کو دقیانوسی یا کم ظرف سمجھا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو لوگ ان رسومات کو انجام دینے کی نفی کرتے ہیں اور ان کو فضول خرچی اور تہذیب و تمدن کے منافی عمل قرار دیتے ہیں لیکن باری آنے پر وہ اس سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں بلکہ ان لوگوں سے سبقت لیتے ہیں جن کو یہ اپنی باتوں سے متاثر کرتے تھے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ یہ سارے رسوم جنم کیوں اور کیسے لیتے ہیں؟ خوشی کی تقاریب و تفریحات کا اہتمام کرنا، جشن و تہوار نانا اور غم و الم اور ماتم کی رسومات جائز طریقے سے نبھانا انسانی فطرت ہے، ضرورت بھی ہے بلکہ معاشرتی زندگی کا حصہ بھی ہے۔ مگر خوشی یا شادی بیاہ وغیرہ اور موت و مرگ کے سوگ و ثواب کے نام پر ایسی ناجائز رسوم کو پروان چڑھانا کہ انہیں نبھانے سے انسان کی ذاتی و گھریلو بلکہ سماجی زندگی عدم توازن یا نابرابری کا شکار ہوجائے کسی بھی طور پسندیدہ و لائق تحسین بات نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے فضول اور رسم و رواج فروغ پاچکے ہیں جن پر بلاشبہ کافی سرمایہ ضائع ہوتا ہے اور بہت سی معاشرتی دشواریاں اور مسائل جنم لے رہے ہیں۔ شادی بیاہ اگر چہ زندگی کا ایک اہم جز ہے لیکن رسم و رواج نے اسے ایسا پیچیدہ مسئلہ بنادیا ہے کہ ایک آدمی اسے نمٹنے کے بعد ساری زندگی اس کے معاشی بوجھ تلے رہتا اور یوں اس خوشگوار فریضے کو ناقابل برداشت بوجھ بنادیا گیا ہے۔ شادی بیاہ کا کئی کئی دنوں تک جاری رہنا صاحب ثروت لوگ اپنی حیثیت کی نمائش کیلئے اپنی لڑکیوں کو بیش قیمت جہیز دیتے ہیں جن کی دیکھا دیکھی متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ بھی اپنی ناک اُونچی رکھنے کیلئے مشکل میں پڑکر جہیز کا بندوبست کرتے ہیں۔ نتیجتاً اپنی زندگی کا بیشتر حصہ شادی کے فرض کو قرض کی ادائیگی میں گزاردیتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موت انسان کی تقدیر کا حصہ ہے ۔ شہر ودیہات میں اب میت کے لواحقین کیساتھ ہمدردی جتانے کیلئے ایسے رسومات بد نے ہمارے سماج کو گھیرا ہے جس کا تذکرہ کرنے سے بھی انسانی دل و دماغ لرز جاتا ہے۔ پہلے پہل یہاں ہمسایہ و رشتہ دار ایک دوسرے کو تین دنوں تک کھلاتے پلاتے تھے لیکن اب روایات اور رواج بدل چکے ہیں۔ اب تو باضابطہ محلہ میں تعزیتی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں اور یہی کمیٹیاں غمزدہ کنبے اور دیگر لواحقین کیلئے کم سے کم تین دنوں تک کھانے وغیرہ پر جو بڑا خرچہ آئے گا وہ جمع شدہ رقم سے ادا کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ انفرادی و اجتماعی سطح پر ان معاشرتی رسوم و رواج اور بدعات کا قلع قمع کرنے کیلئے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کریں اور مذہبی اصولوں اور قواعد و ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے خوشی و غم کے مواقع پر استطاعت کے مطابق ہی خرچ کریں اور فضول خرچی سے مکمل طور پر اجتناب کریں، تاکہ ہمارے سماج اور معاشرے میں توازن برقرار رہے اور ہمارا مال و متاع اور زندگی بہتر طریقے پر گزر بسر ہوجائے۔