(ہلال احمد لون)
اللّٰہ تعالٰی بہت ہی حکیم ودانا ہے۔اُس کی حکمت و دانائی ہم اِس طریقے سے سمجھ سکتے ہیں کہ اللّٰہ تعالٰی نے اِس فانی دُنیا کو چلانے کے لئے میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ بنایا ہے۔ میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ بنی آدم اور حوا کے زمانے سے شروع ہوا۔ اس رشتے کی بنیاد ہم اس طریقے سے سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے حضرت آدم کو اور پھر اُس کی تیرہویں (۱۳) پسلی سے حضرتِ حوا کو پیدا کیا۔ ہم سب اس بات کا پُختہ یقین رکھتے ہیں کہ اللّٰہ تعالٰی نے جس طرح حضرت آدم کو پیدا کیا اُسی طرح حضرت حوا کو بھی پیدا کر سکتے تھے۔ لیکن اِس میں اللّٰہ تعالٰی کی ایک اور بڑی حکمت پوشیدہ تھی کہ جس طرح اللّٰہ تعالٰی نے حضرت آدم کو پیدا کیا، اُسی حضرت حوا کو پیدا کر سکتے تھے۔
اللّٰہ تعالٰی نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا اور پھر اُس کے بدن سے اُس کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا۔ دونوں کو حکم دیا گیا کہ اے آدم و حوا، جاؤ جنت میں گھومو پھروں ،عیش و آرام کرو، لیکن اُس درخت کے سامنے نہ جانا۔ ورنہ خسارے میں رہوگے۔ اِس میں بھی اللّٰہ تعالٰی کی ایک بڑی حکمت پوشیدہ تھی۔ کیونکہ جب اللّٰہ تعالٰی نے حضرت آدم کو پیدا کیا اور پھر فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ سب نے آدم کو سجدہ کیا لیکن اِبلیس نے انکار کیا۔ اِس میں بھی اللّٰہ تعالٰی کی یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ اللّٰہ تعالٰی نے سب سے پہلے نافرمانی کرنے والے کو مَردُود قرار دے دیا اور اُس پر ہمیشہ کے لئے لعنت بھیج دی گئی۔
اُس کے بعد جب حضرت آدم اور حضرت حوا کو جنت میں عیش کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر صرف ایک ہی درخت کے پاس جانے کو منع کیا گیا۔ اِس میں بھی اللّٰہ تعالٰی کی ایک بڑی حکمت پوشیدہ تھی کہ اللہ تعالٰی بہت ہی بڑے فیاض اور عطا والے ہیں، پھر کیوں اِس درخت کے سامنے جانے سے منع کیا گیا تھا۔ اگر جنت صرف اپنے خاص اور صرف نیک بندو کے لئے انعامات کی جگہ ہے پھر کیوں ابلیس کو جنت کے اندر داخل ہونے دیا جہاں اس نے آدم و حوا کو بہکایا۔ وہ فرشتوں کے ذریعے یا اللّٰہ کی قدرت کے ذریعے واپس نکالے جاسکتے تھے یا جنت کے اندر جانے سے روکے جاسکتے تھے۔ لیکن اِس میں بھی اللّٰہ تعالٰی کی ایک بڑی حکمت پوشیدہ تھی کہ اللّٰہ تعالٰی نے آدم اور حوا کو جنت سے نکال کر دُنیا میں لانا تھا اور آخر میں دُنیا کا نظام قائم کرنا تھا۔
اللّٰہ تعالٰی نے جس زمین پر ابلیس کو بھیجا، اُسی زمین پر حضرت آدم اور حضرت حوا کو بھی ڈالا۔ کیونکہ اِن سبھوں نے اللّٰہ تعالٰی کی نافرمانی کی تھی اور اِس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ دُنیا شاید نافرمانوں کو توبہ کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اِس بات سے ہمیں یہ اَخذ ہوتا ہے کہ دنیا صرف توبہ اور نیک عمل کرنے کی جگہ ہے۔ یہ بات بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ اللّٰہ تعالٰی کتنا حکمت والا اور دانا ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کے حکم کی نا فرمانی ابلیس، حضرت آدم اور حضرت حوا تینوں نے کی تھی۔ لیکن توبہ صرف حضرت آدم اور اماں حوا کو ہی نصیب ہوا۔ ابلیس پھر سے مردُود رہ گیا۔ کیونکہ اُس نے اللہ تعالٰی کی ذات کی قسم کھائی کہ وہ زندگی کے آخری سانس تک اور قیامت تک انسان کو نیک راستے سے روکے گا۔ وہ اِس بات پر اَکڑ کر رہ گیا کہ آدم کی تخلیق کی وجہ سے اُسے فرشتے کے رُتبے سے ہٹایا گیا۔ اِس میں بھی اللّٰہ تعالٰی کی ایک بڑی حِکمت پوشیدہ تھی۔ اللہ تعالٰی نے اپنی اپنی طاقت کے لحاظ سے سب انسانوں کو آزمائش میں ڈالا ہے اور تمام انسانوں کا امتحان ہے کہ کون اللہ تعالٰی کی پیروی کرے گا اور کون شیطان کے کہنے پر چلے گا۔ کون توبہ کرے گا اور کون گمراہی اختیار کرے گا۔
اللّٰہ تعالٰی کی ایک سب سے بڑی پوشیدہ حکمت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی کو روزِ محشر کا دن قائم کرنا ہے اور اس دن دُنیا کے تمام مَخلوقات کو اپنی قدرت دکھائے گا۔ کسی کو جہنم کے عذاب کی صورت میں، کسی کو جنت عطا کرنے کی صورت میں۔ کوئی پہلے جہنم میں سزا کاٹ کر پھر جنت کے مزے دیکھ کر اللّٰہ تعالٰی کی قدرت کے نظارے دیکھے گے۔ سب لوگ اللّٰہ تعالٰی کی قدرت کے نظارے مرنے کے بعد زندہ ہونے میں اور حساب کتاب کی صورت میں دیکھے گے جس دن انسان کے ہاتھ پاؤں اور باقی اعضاء بولنے لگے گے۔ ۔ ذرہ برابر آسمانوں یا زمینوں کے اندر چُھپی ہوئی نیکی اور بدی نمکا حساب لیا جائے گا اور اُس ک بدلے برابر اجر یا سزا دیا جائے گا۔ اللہ تعالٰی کی قدرت، انصاف اور عدالت کا نظام دُنیا کی ساری مخلوق دیکھے گی۔
یہ مضمون مرحوم والد صاحب حاجی غلام رسول لون صاحب کی یاد میں شائع کیا جاتا ہے۔ مصنف کے ساتھ [email protected] اور 7889842207 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔