ریاض فردوسی۔9968012976
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کی اور حق و باطل کا فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں ، تو تم میں سے جو کوئی اس مہینے میں حاضر ہو تو وہ اس کے روزے رکھے ، اور جو کوئی بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے تعداد پوری کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تم پر تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا اور تاکہ تم تعداد پوری کر سکو اور تم اس پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو جو اُس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور تاکہ تم شکر گزار بنو(سورہ البقرہ۔آیت۔185)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کی عظمت و فضیلت کو بیان کیا ہے۔اس کی دو اہم ترین فضیلتیں ہیں ، پہلی یہ کہ اس مہینے میں قرآن اترا اور دوسری یہ کہ روزوں کے لئے اس مہینے کا انتخاب ہوا۔اس مہینے میں قرآن اترنے کے یہ معانی ہیں :
(1)رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت کے بارے میں قرآن پاک نازل ہوا۔
(2)قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان میں ہوئی۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 185،2 / 252-253)
(3)مکمل قرآن کریم رمضان المبارک کی شب ِقدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:185/1 / 121)
(4) قرآن ہدایت ہے۔
(5)روشن نشانیوں پرمشتمل ہے۔
(6)حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔قرآن شریف کے23نام ہیں اور یہاں قرآن مجیدکا دوسرا مشہور نام فرقان ذکر کیا گیاہے۔
(7) ماہ مبارک میں قرآن کریم اترا مسند احمد کی حدیث میں ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا! ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور توراۃ چھٹی تاریخ اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا۔(مسند احمد:107/4:ضعیف)
ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارھویں کو اور انجیل اٹھارہویں کو، اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل و زبور جس پیغمبر پر اتریں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزت سے آسمانی دنیا تک تو ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتًا فوقتًا حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا۔
رمضان میں کرنے کے لۓ کام!
1۔خالص توبہ۔
ہر وقت توبہ و استغفار كرنا واجب ہے، ليكن اس ليے كہ يہ ماہ مبارك قريب آ رہا ہے، اور تو مسلمان شخص كے ليے زيادہ لائق ہے كہ وہ اپنے گناہوں سے جلد از جلد توبہ كر لے تا كہ جب يہ ماہ مبارك شروع ہو تو وہ صحيح اور شرح صدر كے ساتھ اطاعت و فرمانبردارى كے اعمال ميں مشغول ہو جائے، اور ا سكا دل مطمئن ہو۔
2۔ اللہ سے دعاء اور گریہ و زاری كرنا۔
بعض سلف كے متعلق آتا ہے كہ وہ چھ ماہ تك يہ دعا كرتے اے اللہ ہميں رمضان تك پہنچا دے، اور پھر وہ رمضان كے بعد پانچ ماہ تك يہ دعا كرتے رہتے اے اللہ ہمارے رمضان كے روزے قبول و منظور فرما. چنانچہ مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اپنے پروردگار سے دعا كرتا رہے كہ اللہ تعالى اسے رمضان آنے تك جسمانى اور دينى طور پر صحيح ركھے، اور يہ دعا كرنى چاہيے كہ اللہ تعالى اپنى اطاعت كے كاموں ميں اس كى معاونت فرمائے، اور اس كے عمل قبول و منظور فرما لے۔
3۔ اس عظيم مہینے كے قريب آنے كى خوشى و فرحت ہو.كيونكہ رمضان المبارك كے مہينہ تک صحيح سلامت پہنچ جانا اللہ تعالى كى جانب سے مسلمان بندے پر بہت عظيم نعمت ہے،اس ليے كہ رمضان المبارك خير و بركت كا موسم ہے، جس ميں جنتوں كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنموں كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں۔قرآن غزوات و معركوں كا مہينہ ہے جس نے ہمارے اور كفر كے درميان فرق كيا۔
4۔ پچھلے سال کے فرض روزوں کی قضا۔
گر کسی مسلمان کے ذمے پچھلے سال کے روزے باقی ہیں تو اسے چاہیے کہ رمضان کی آمد سے پہلے پہلے ان کی قضا دے لے۔
5۔ علم حاصل كرنا۔
تا كہ روزوں كے احكام كا علم ہو سكے، اور رمضان المبارك كى فضيلت كا پتہ چل سكے۔
6 ۔ ايسے اعمال جو رمضان المبارك ميں مسلمان شخص كوعبادت كرنے ميں ركاوٹ يا مشغول نہ ہونے كا باعث بننے والے ہوں انہيں رمضان سے قبل نپٹانے ميں جلدى كرنى چاہيے، جیسے عید کی شاپنگ وغیرہ۔
7 ۔گھر ميں اہل و عيال اور بچوں كے ساتھ بيٹھ كر انہيں روزوں كى حكمت اور ا س كے احكام بتائے، اور چھوٹے بچوں كو روزے ركھنے كى ترغيب دلائے۔
8 ۔كچھ ايسى كتابيں تيار كى جائيں جو گھر ميں پڑھى جائيں، يا پھر مسجد كے امام كو ہديہ كى جائيں تا كہ وہ رمضان المبارك ميں نماز كے بعد لوگوں كو پڑھ كر سنائے۔
9۔ قرآن مجيد كى تلاوت كرنا۔
سلمہ بن كہيل كہتے ہيں: شعبان كو قرآت كے مہينہ كا نام ديا جاتا تھا۔جب شعبان كا مہينہ شروع ہوتا تو عمرو بن قيس اپنى دوكان بند كر ديتے، اور قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے فارغ ہو جاتے۔
ابو بكر شبلی فرماتے ہیں!
"ماہ رجب كھيتى لگانے كا مہينہ ہے، اور ماہ شعبان كھيتى كو پانى لگانے كا، اور ماہ رمضان كھيتى كاٹنے كا مہينہ ہے۔”