تحریر:-ہلال بخاری
ہم جس دنیا میں رہتے ہیں یہاں آج بھی کچھ علاقوں کے لوگ گستاخی کی اصلی صفت سے ناآشنا ہیں۔ کچھ زیرک اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے سادہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر ایسی وحشتناک مثالیں قائم کرتے ہیں کہ ساری قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔اسی قسم کے علاقے کے ایک اسکول میں ایک بہت ہی ذہین اور دانا استاد کو بچوں کو پوری لگن اور محبت سے پڑھانے میں ماہر مانا جاتا تھا۔سب کہتے تھے کہ یہ فرائض پوری طرح سے نبھانے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ وہ اسکول میں ‘اردو ٹیچر” کے نام سے مشہور تھا۔ کچھ لوگ اسے ” اردو سر” کے نام سے پکارتے تھے۔
وہ دوسروں کو بھی ہمیشہ متحرک رکھنا چاہتا تھا۔ اسکو جیسے سستی دیکھ کر ذہنی کوفت کا احساس ہوتا تھا ۔وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسرے کے فرائض کا بھی خیال رکھتا تھا۔ محنت کو وہ فرض عین کا درجہ دیتا تھا۔
ایک دن اسی سلسلے میں اس اردو سر کی ان بن اپنے ایک ساتھی استاد سے ہوئی جو انگریزی پڑھاتا تھا۔ اس نے جب اپنے ساتھی کو محنت اور لگن سے کام کرنے کی صلاح دی تو اس کا ساتھی بہت ناراض ہوا ۔ یہاں تک کہ ہاتھا پائی تک بات پہنچی۔
اردو سر نے کہا ” میں نے ایسی کیا بات کہی کہ آپ اتنے ناراض ہوئے ؟”
انگریزی سر نے کہا ، ” تم ہوتے کون ہو دوسروں کو مشورہ دینے والے ”
اس نے جگڑے کو اختتام کرنے کی غرض سے کہا ، ” مجھ سے گستاخی ہوئی ہو تو معاف کردو ، میرا کوئی غلط ارادہ نہ تھا”
لیکن انگریزی سر نے غصے سے کہا ،”
میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں ”
تب باقی اساتزہ جمع ہوئے اور ان دو کو جگڑے سے بچایا۔
اگلے دن امتحان منقد ہورہے تھے۔ اس دن اسی اردو سر کے سبجکٹ یعنی”اردو” کا پرچہ تھا۔ اردو سر ہمیشہ نقل کرنے کے خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نقل چوری اور بے ایمانی ہے اور دوگنا گناہ عظیم ہے۔ امتحان کے دوران اس کی نظر ایک طالب علم پر پڑی جو مشکوک انداز میں ہل رہا تھا۔ جب اردو سر نے اس کی تلاشی لی تو انکو نقل کی ایک چھوٹی سی پرچی برآمد ہوئی۔اس نے جب اس طالب علم کا جوابی پرچہ لینے کی کوشش کی تو طالب علم آگ بگولا ہوا۔ اس کو لگا کہ اس کے ساتھ نا انصافی کی جارہی ہے۔
اس نے غصے سے کہا ” سر آپ میرا آنسر شیٹ نہیں لے جا سکتے ”
اردو سر نے جواب دیا ، ” میں صرف دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس میں سے کچھ اس پرچی سے ملتا ہے کہ نہیں۔”
طالب علم نے پھر غصے سے کہا ، ” یہ آپ اچھا نہیں کر رہے” سر نے کہا، ” ایک تو نقل جیسا بڑا گناہ کر رہے ہو اس پر گستاخی سے بھی باز نہیں آرہے۔”
طالب علم نے پھر گستاخانہ لہجے سے کہا، ” نقل کرنا کوئی گناہ نہیں۔ یہ آپکا اپنا ہی خیال ہے ۔ آپ خود ہی اسکو گناہ بناتے ہو”
اس نے پھر دھمکی دی ، ” یہ آپ نے اچھا نہیں کیا ، یاد رکھنا ”
تب اردو سر نے پوچھا ، ” کیا کرلو گے آپ؟”
پھر دوسرے اساتزہ نے آکر معاملہ رفع دفع کیا۔
سر نے اردو کے پرچے پر ایک سوال میں ” بہادور” لفظ پر جملے بنانے کا سوال لکھا تھا۔
جب اگلے دن سر مارکنک کررہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ کسی ایک طالب علم نے اپنے پرچے پر ایک صحابی کا نام استعمال کرکے لکھا تھا
"۔۔۔۔۔۔۔شیر کی طرح بہادور تھا”
لیکن اس طالب علم نے شاید جلدی میں لفظ ” شیر ” کی جگہ ” یشر ” لکھا تھا۔استاد نے اس کی کرکشن کی اور تمام پرچوں کی مارکنک کرکے دفتر میں رکھ دیے۔
اگلے دن اسکول میں ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ جب اساتزہ اسکول پہنچے تو ان کو معلوم ہوا کہ سب طلاب احتجاج پر ہیں۔ معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ کسی استاد نے صحابی کے نام کے ساتھ گستاخی کی ہے۔
سب طلاب اکٹھے ہو کر فلک شگاف نعرے بلند کر رہے تھے
” گستاخوں کی بس ایک دوا
سر تن سے جدا، سر تن سے جدا”
طلاب کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔ اسکول انتظامیہ حالات کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر ہر کوشش بے کار نظر آرہا تھا۔
ان طلاب کی لیڑ وہی لڑکا کر رہا تھا جو کل اردو سر سے الجھا تھا۔جوں ہی اس نے سر کو مین گیٹ سے اندر آتے دیکھا اس نے غصے سے کہا ،
” اس گستاخ کو ہمارے حوالے کردو ورنہ اچھا نہیں ہوگا”
اردو سر حیرت سے سب کو تک رہے تھے ۔اس سے پہلے کہ طلاب کا ہجوم سر کو گھیر لیتا، کچھ استادوں نے اردو سر کا گھیراو کرکے اسے بچا لیا اور اندر لے گئے۔ سر حیرت سے کہتے رہے
” لیکن بات کیا ہے ؟”
احتجاج کس بات کا ہے۔۔؟”
طلاب اور بے قابو ہونے لگے تو اسکول کے پرنسپل صاحب خود بالکونی پے آکر ان سے بات کرنے لگے۔
انہیں بتایا گیا کہ آپکے اردو ٹیچر نے صحابی کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ اس نے ایک جملے کی کرشن کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” ۔۔۔۔۔۔۔بیڑیے کی طرح بہادور ہے ۔ ”
جب تک اسکو طلاب کے حوالے نہ کیا جائے گا وہ خاموش نہیں ہونگے۔
نعرے اور تیز ہوکر گونجنے لگے
” گستاخوں کی ایک سزا
سر تن سے جدا ، سر تن سے جدا۔”
جب پرنسپل صاحب نے اردو ٹیچر سے پوچھا تو اس نے کہا اس نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی ہے۔ پھر وہ خود بالکونی پر آکے طلاب سے مخاطب ہوئے ۔
"دیکھو بچو آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔میں کیوں ایسی گستاخی کروں گا جس کا آپ الزام لگاتے ہو؟ اس سے میرا کیا فایدہ ہوگا۔کسی بچے نے شیر لفظ کی جگہ یشر لکھا تھا میں نے بس اس کی کرکشن کی ۔”
لیکن طلاب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ تو اردو سر نے کچھ دیر ٹھہر کر کہا،
” دیکھو اپنا قیمتی وقت ان فضول چیزوں میں ذائع مت کرو اور جاکے امتحان کی تیاری کرو ۔ آپ لوگوں کو کوئی بٹکا رہا ہے۔
جب لیڑر نے یہ سنا تو وہ چلانے لگا،
"یہ ہمارے دفاع کے احتجاج کو فضول کہتا ہے اور کہتا ہے ہمیں ورگلایا جا رہا ہے۔ یہ ایسے نہیں مانیں گے دروازے توڈ دو اور ان کو پکڑ لو۔”اس کے بعد شور میں اور ذیادہ اضافہ ہوا۔ طلاب نے غصے میں آکر اسکول کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ ڈالے اور اساتزہ کو پگڑنے دوڑے ۔ اس سے پہلے کہ پولیس آکر انکو روکتی انہوں نے ہر طرف بربادی مچادی۔ کئی اساتزہ کو پیٹا گیا۔ کچھ پر تھوکا گیا اور اردو ٹیچر کو زندہ نظر آتش کیا گیا۔
جب پولیس حالات پر قابو پانے کے لئے طلاب کو گرفتار کرنے کے لئے دوڈ رہی تھی تو ہجوم میں سے ابھی بھی یہی نعرے بلند ہورہے تھے ، ” گستاخ کی بس ایک سزا ، سر تن سے جدا سر تن سے جدا”
کچھ روز بعد جب طلاب کے اس لیڑر کو جس کو کچھ دن پہلے اردو ٹیچر نے نقل کرتے ہوئے پکڑا تھا، اور اسکے کچھ ساتھیوں کو کورٹ میں پیش کیا گیا تو اس نے جج صاحب اور سب کے سامنے فخر سے کہا۔
” ہاں ہم نے ہی اس گستاخ ٹیچر کو زندہ جلایا ۔ ہمیں صرف اس بات کا افسوس ہے کہ پولیس آنے سے پہلے ہم نے اسکی لاش کا سر کیوں تن سے جدا نہیں کیا۔
اس کے ساتھی اور یہاں تک کہ بنچز پر بیٹھے کچھ لوگ تک فخر سے نعرے بلند کرنے لگے
” گستاخ کی بس ایک سزا
سر تن سے جدا، سر تن سے جدا”
ان کے نعروں سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ان سب میں اب بھی نفرت کا وہی جزبہ مچل رہا ہے۔یہ نعرے اتنے وحشتناک تھے کہ جج صاحب کی ہمت نہ ہوئی کہ انکو خاموش کرنے کے لئے اپنے سامنے پڑے میز پر ہتھوڑا مار کر ” آرڈر آرڈر” کہے۔