(افسانچہ)
یوسا، جس کو یونان کے بیدار داشمندوں میں ایک عمدہ داشمند تصور کیا جاتا تھا ، کئی دیوتاوں کو عظیم مانتا تھا ۔ مگر ایشتر اسکا سب سے پسند دیدہ خدا تھا۔ اس کو یقیین تھا کہ اس کی ساری نعمتیں ایشتر کی وجہ سے ہیں۔ وہ ایشتر کی پرستش کرتے کرتے ہی بڑا ہوا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اسکا یہ خدا اس پر بہت مہربان ہے۔ ایشتر کے خوبرو اور دیو پیکر مجسمے کو دیکھ کر اسے قوت بھی ملتی تھی اور اعتماد بھی۔ اسی کی بدولت اس کو ایک عمدہ زندگی ملی تھی۔وہ اب صاحب مال اور صاحب اولاد تھا اور سب سے زیادہ اس کی زندگی پر سکون تھی۔ اس کے لئے وہ ایشتر کے دربار میں اکثر جاکر قربانی پیش کرتا تھا۔ اس ستھرے اور دلکش دیو قامت کی پرستش کے بعد وہ اور ذیادہ سکون محسوس کرتا۔ یعنی وہ اپنے آپکو خوش و خرم پاتا تھا اور خود کو خوش نصیب کہتا تھا کہ اس کو اصلی راستہ ملا ہے۔
زندگی لیکن ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔ ایک دن اچانک اس کی زندگی میں کھل بل مچ گئی۔ اس کا اکلوتا بیٹا بہت بیمار پڑگیا۔ ڈاکٹروں نے اس کی بیماری کو دیکھ کر صرف حیرت اور بے بسی کا اظہار کیا۔بچہ لگاتار کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا یہاں تک کہ محظ ہڑیوں کا ایک بے بس ڈانچہ نظر آنے لگا اور اسکے بچنے کی کم ہی آس رہی۔
یوسا یہ دیکھ کر بہت پریشان ہورہا تھا کیونکہ اولاد کا درد اور اس کی بے بسی ماں باپ کے دل لگتی ہے اور انکے جگر کو چھلنی کرتی ہے۔
مگر یوسا کو اپنے خدا پر پورا اعتماد تھا۔اس کو یقین تھا کہ ایشتر ضرور مدد فرمائے گا۔وہ اپنے خدا کے دربار میں ٹوٹا ہوا دل لے کر حاضر ہوا۔ پھول چھڑھائے اور قربانی بھی پیش کی۔ پھر عبادت میں مشغول ہوا۔ مگر آج بھی اسکی عبادت میں اسکو مطلب سے زیادہ خلوص ہی نظر آتا تھا۔ اس نے اپنے خدا سے مخاطب ہو کر عرض کی ” اے عظیم ایشتر مجھے اس بات کا اتنا غم اپنے اکلوتے بیٹے کے کھوجانے کا نہیں جتنا اس بات کا ہے کہ میں آپ سے ناامید ہوجاوں۔اس لِئے میری امید قائم رکھ۔ صرف آپ ہی امید قائم رکھ سکتے ہو”
اسے یقین تھا کہ اسکا خدا سب سن رہا ہے اور جلد ہی اسکی دعا قبول ہوگی۔
جب وہ گھر لوٹ کو رات کو سو گیا تو اس نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا۔ خواب میں کوئی غیبی آواز اس سے کہہ رہی تھی؛
"کبھی کبھی سچ بھی تباہی مچا دیتا ہے۔یہ آپکے خیالات کے بنے بنائے محل کو ڈھا کر کر کھنڈرات میں تبدیل کرتا ہے۔ اس لئے ہم ایسے محسوس ہونے پر اکثر سچ کو ہی جھوٹ کہنے لگتے ہیں۔ ہمارا وہم ہمارا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے کیونکہ ہم اسکو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں مگر یہ ہم کو کھوکھلہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ کیونکہ اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہوتی۔ تم جس کو اپنا مسیحا اور مددگار سمجھتے ہو اسکا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔تم ساری زندگی جس امید پر زندہ رہے ہو اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔”
آخر پر اس آواز نے زیادہ زور دے کر کہا ؛
” سن لے تمہارا خدا بے بس اور تمہارا یقین جھوٹا ہے ۔ تمہارا بیٹا اب مرنے والا ہے اور اسے اب کوئی نہیں بچا سکتا۔ کوئی بھی نہیں”
یہ وحشت ناک خبر سن کر ہی وہ جاگ گیا۔ اس کا پورا بدن سردی کے موسم میں بھی پسنے سے بھیگ گیا تھا۔ اس کا دماغ یہ خواب سوچ کر ہی چکرانے لگا مگر اس نے خود کو لود ہی تسلی دے کر کہا ،
” بس برا خواب تھا اور خواب سے کیا لرز جانا”
وہ بستر اوڑھ کے پھر سوگیا۔
کچھ دیر بعد وہ رونے کی آواز سن کر جاگ گیا۔ اس کو معلوم ہوا کہ اسکا اکلوتا بیٹا چل بسا ہے۔اس کا پورا بدن غم کی شدت سے کانپنے لگا۔ اس کو اب خواب کی حقیقت کا اندازہ ہونے لگا۔ اسکو ایسا محسوس ہوا کہ اس نے جان بوجھ کر سچ کو نکارنے کی کوشش کی ہے۔ شدت غم اور بے بسی سے اس کی حالت قابل رحم ہوئی۔
صبح ہوچکی تھی اور ہر طرف ماتم کا سما تھا۔ اس سے رہا نہ گیا اور وہ دوڈ کے ایشتر کے دربار میں حاضر ہوا مگر آج اس کے سر پے جیسے جنون سوار تھا۔ وہ ایشتر کے سامنے غصے سے کہنے لگا ؛
” کیا تم محظ میرا وہم تھے ؟ کیا میں پوری عمر اپنے وہم کی پرستش کرتا رہا ؟ کیا تم محظ ایک تصور ہو ؟
کیا اصل میں تمہارا کوئی وجود نہیں ؟ ”
آج ایشتر کا مجسمہ اسے پتھر کا ایک بدصورت اور بے کار پتلہ نظر آرہا تھا جس سے اس کو صرف اب بے بسی اور لاچارگی محسوس ہورہی تھی۔
پھر اسنے خود بے بسی سے اپنا سر دیوار پر مار کر کہا ، ” لیکن میری بات کا جواب کون دے گا ؟”
یہ بات سوچ کر وہ اور زیادہ بے قرار ہوا اور پے در پے دیوار پر سر مار کر پاگلوں کی طرح چیختا رہا،
"میری بات کا جواب کون دے گا ؟
کون دے گا ؟
کون دے گا ؟”
یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوکر گر پڑا۔
ہلال بخاری
ساکنہ : ہردوشورہ کنزر