تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلفام بارجی۔
بارجی ہارون۔ سرینگر۔
وادی کشمیرکو جنت بینظیر بھی کہاجاتا ہے۔یہ وادی پیروں، فقیروں۔منیوں اور ریشیوں کی وادی ہے اس لئےاسے ریش وأر بھی کہا جاتا ہے۔ ادبی دنیا میں وادی کی ایک الگ تواریخ ہیں۔ اس وادی نے جہاں لل عارفہ کو جنم دیا ہے وہیں حبہ خاتون بھی اسی وادی کی دین ہے۔ شمس فقیر ہو یا محمود گامی۔ رسول میر ہو یا وہاب خار۔ سوچھ کرال ہو یا احد زرگر۔ نعمہ صأب ہو یا عبدل احد آزاد۔ دینا ناتھ نادم ہو یا رحمان ڈار۔ مزا غلام رسول بیگ عارف ہو یا فراق۔ مہجور ہو یا میر غلام رسول نازکی۔ تنہا انصاری ہو یا منظور ہاشمی۔ نشاط انصاری ہو یا امین کامل۔ یا ہو رحمان راہی یا پھر وادی کے دیگر کہنہ مشق شاعرہوں غرض سرزمین کشمیر کے یہ ثپوت سال ہا سال سے ادبی دنیا کو تابناک بناتے آئے ہیں اور یہ ہمارے ادبی دنیا کے وہ چمکتے تارے تھے جن کی روشنی سے ہمارے دل و دماغ آج بھی روشن ہیں اور ان سپوتوں کے نام رہتی دنیا تک ادب کے مختلف گوشوں میں چمکتے رہیں گے۔ وقت گزرتا گیا اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا کو آباد رکھنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آج چونکہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور اسی انٹرنیٹ کو بروئے کار لاکر آج سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں سے ادب کی آبیاری کی جاتی ہے۔ اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ زمانہ انٹرنیٹ سے پہلے چند گنے چنے لوگ ہی ادبی دنیا میں جانے جاتے تھے اور جب وادی میں کہیں ادبی تقریب بھی منعقد ہوتی تھی تو ان ہی گنے چنے لوگوں کو اس تقریب میں مدعو کیا جاتا تھا لیکن گزشتہ چند برسوں سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت کئی سارے ایسے لوگ سامنے آگئے جن کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ان لوگوں میں کئی بزرگ قلمکار اور شاعروں کے علاوہ کئی نوآموز قلمکار شاعر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ اگرچہ یہ قلمکار اور شاعر گمنامی کی حالت میں لکھتے تھےلیکن ان گمنام قلمکاروں اور شاعروں کو عوام کے سامنے لانے اور پہچان دینے میں سوشل میڈیا کا ایک اہم رول ہے۔یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ COVID-19 کے دوران سرکاری و غیر سرکاری تقریبات کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیاں بھی متاثر رہیں اور اس بیچ وادی کی کئی پرانی اور تسلیم شدہ ادبی تنظیمیں سوشل میڈیا پر متحرک ہوگئیں اور ان تسلیم شدہ ادبی تنظیموں کے ساتھ مختلف ادبی ناموں سے کئی اور ادبی تنظیمیں سوشل میڈیا کے زریعے معرض وجود میں آگئیں اور ان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اب ان ادبی تنظیموں کے زریعے آن لائن ادبی سرگرمیاں تقریباً گزشتہ تین برسوں سے جاری و ساری ہیں۔ ان ادبی تنظیموں کے زریعے ہمیں آئے روز آن لائن نئے نئے ادبی پروگرام سننے کو ملتے ہیں اور ان ہی ادبی تنظیموں کے زریعے مختلف آن لائن ادبی پروگراموں کےانعقاد کرنے سے ایک تو گمنام قلمکار اور شاعروں کا کلام منظر عام پر آگیا دوسرا ادب شناسوں کے تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔یہاں پر ہم یہ بات فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ادبی سرگرمیوں کو جاری وساری رکھنے میں سوشل میڈیا ایک اہم زریعہ بن گیا ہے۔