مبارک ہو سلیم الہی! اللہ نے آپ کو بیٹی جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے۔ جی ہاں! آپ باپ بن گئے اور دونوں ماں بیٹی صحیح سلامت ہیں۔ یہ الفاظ سن کر سلیم کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ اس نے اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ سلیم الٰہی پیشے سے ایک مزدور تھا جو اپنا خون پسینہ ایک کر کے اپنی ماں اور بیگم کا بہت اچھے سے خیال رکھتا تھا۔ محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ سلیم بہت ہی نیک سیرت اور ایک دیندار انسان تھا۔ بیٹی کی پیدائش سے اب ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ تو گیا، لیکن سلیم الٰہی نے دل میں قصد کیا کہ وہ دن رات محنت و مشقت کر کے اپنی بیٹی نرغس کی تعلیم و تربیت کی طرف خاصا دھیان دے گا۔ دن بھر مزدوری کے بعد جب سلیم گھر لوٹتا، تو نرغس کی ایک مسکراہٹ سے اس کی دن بھر کی تھکان دور ہوجاتی۔ نرغس کی امی نیلوفر اپنی بیٹی کی ابتدائی پرورش میں اچھا خاصا کردارادا کرتی ہے۔ وہ نرغس کو بولنے کا ہنر، اپنے بڑوں کا ادب و احترام، کھانے پینے کے آداب اور سب سے ضروری قرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کرتی ہے۔
نرغس چھ سال کی ہو چکی تھی اور اب اسکول میں داخلہ کرانا مطلوب تھا۔ سلیم الٰہی نے شہر کے بہترین اسکول میں نرغس کا داخلہ کیا۔ نرغس بہت ہی خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذہین بچی تھی جو دل لگا کر اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دیتی تھی۔ وقت گزرتا گیا، اب نرغس دسویں جماعت میں تھی۔ وہ کافی بڑی ہو چکی تھی لیکن وہ اپنے ماں باپ کی ایک فرمان بردار بیٹی تھی۔ اپنے ماں باپ کا ہر حکم ماننا اور ان کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنی ماں کے ہر کام میں ہاتھ بٹاتی تھی اور ہر روز اپنے تھکے ہوئے بابا کے پیر دھویا کرتی تھی۔ یہ سب ایک بہترین پرورش کا نتیجہ تھا۔ سلیم اور نیلوفر اپنی بیٹی سے بہت ہی خوش تھے اور ہر وقت نرغس کی کامیابی کے لیے اللہ کے حضور دعا کرتے تھے۔ دسویں جماعت کے امتحانی نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔ نرغس نے امتیازی پوزیشن سے دسویں کا امتحان پاس کیا تھا۔ نرغس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ ساتھ پورے شہر کا نام روشن کیا۔ نرغس کو لاتعداد انعامات سے نوازا گیا۔ سلیم اور نیلوفر نے اپنی خواہشات کو قربان کرکے نرغس کی تعلیم و تربیت کا جو پودا بویا تھا، آج اس کا پھل پا کر دونوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا اور اپنے رب کا شکر ادا کیا۔
نرغس نے دل لگا کر اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور چند سالوں میں ایم -اے کی ڈگری اول درجہ سے حاصل کی اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ماہانہ ہزار روپیہ تنخواہ کے عوض کام کرنے لگی۔ سلیم الٰہی نے اب راحت کی سانس لی کیونکہ اب گھر کا خرچہ چلانے میں نرغس بھی مدد کرنے لگی۔ سلیم اپنی بیٹی سے بے انتہا محبت کرتا تھا اور اس کو ہمیشہ اپنے قریب دیکھنا چاہتا تھا۔ نرغس کی جدائی اس کو قطعی طور منظور نہ تھی، لیکن بیٹیاں گھر میں مہمان کی طرح ہوتی ہیں۔ نرغس کے لیے اب شادی کے رشتے آنے لگے لیکن نرغس جس معاشرے کا حصہ تھی، وہاں شادی کرنا ایک مشکل کام تھا اور جہیز اکٹھا کرنا اس سے بھی مشکل کام تھا۔ نرغس کی ایک شادی شدہ سہیلی نے کہا تھا کہ ” جس لڑکی کے ساتھ جتنا جہیز جاتا ہے، اس کی اتنی ہی عزت کی جاتی ہے اور ہاں یہ عزت کب تک کی جائے گی یہ سسرال والوں پر منحصر ہے”۔ یہ بات نرغس کو اندر ہی اندر ستائے جا رہی تھی کیونکہ اس کو اپنے باپ کی غریبی پر پوری نظر تھی اور وہ جانتی تھی کہ اس کا باپ جہیز نہیں دے پائے گا اور نرغس خود بھی جہیز کے بالکل خلاف تھی۔ دوسری جانب جن لڑکیوں کے ساتھ جہیز نہیں جا پاتا یا کم جاتا ہے، ان کی داستانیں اخباروں میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ایسی عورتیں یا تو چولہا پھٹنے سے مر جاتی ہیں یاسیڑھیوں سے پھسل کر گر جاتی ہیں یا گھر سے نکالی جاتی ہیں، یہ باتیں نرغس کے دماغ میں گونج رہی تھی۔
سلیم الہی نے اپنی پوری زندگی کی کمائی نرغس کی تعلیم و تربیت پر ضرف کی تھی اور بیٹی کی شادی کو لے کر بڑا پریشان رہنے لگا کیونکہ جہیز دینا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ جہیز کے چلتے، نرغس نے بہت سارے رشتےٹھکرا دیئے ۔ ایک روز رخسانہ اپنے بیٹے حاتم کے لیے رشتہ لے کر نرغس کے گھر پہنچ گئی اور سلیم الٰہی سے اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگا۔ اس سے پہلے کہ سلیم الٰہی کچھ بولتا، رخسانہ نے کہا کہ وہ جہیز کے بالکل خلاف ہیں، البتہ اگر بیٹی کو اپنی مرضی سے کچھ سامان ساتھ دینا چاہتے ہوتو وہ الگ بات ہے مگر ہماری طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ یہ سن کر سلیم بہت خوش ہوا اور اس نے فوراً ہاں بھر دی۔ شادی کی تاریخ مقرر ہوئی اور کچھ عرصے بعد نرغس اور حاتم کی شادی ہوئی۔
شادی کے بعد نرغس کو ایک اچھی خاصی تنخواہ والی سرکاری ملازمت ملی۔ نرغس اپنی تنخواہ میں سے تھوڑی سی رقم اپنے غریب والدین کو بھیجا کرتی تھی اور نرغس نے اپنے والد کو مزدوری کرنے سے پرہیز کیا۔ جب اس بات کا علم رخسانہ کو ہوا تو اس نے نرغس کو ستانا شروع کیا اور طرح طرح کے طعنے دینے لگی۔ اب جہیز بھی ایک مدا بن گیا۔ اس موڑ پر حاتم نے اپنی ماں کا ساتھ نبھانا مناسب سمجھا اور اس طرح نرغس پر جسمانی و ذہنی تشدد اب ایک معمول بن گیا۔ ڈیوٹی سے آنے کے بعد حاتم نرغس کو بری طرح پیٹنے لگا اور ایک ایک پیسے کا حساب لینے لگا ہے۔ نرغس بے بس تھی! ایک طرف اس کا بوڑھا باپ اور دوسری طرف سسرال! نرغس زندگی کی کشمکش میں پھنس گئی تھی۔ نرغس کو میر تقی میر کا وہ دلدوز قصہ یاد آتا ہے جب میر تقی میر نے اپنے گھر کا سودا خاموشی سے کرکے اپنی بیٹی کو جہیز میں سب کچھ دیا۔ شادی کی رات بیٹی سے کسی نے کہہ دیا کہ تیرے باپ نے ” تیرا گھر بسا دیا لیکن اپنے گھر کو اجاڑ کر”۔ بیٹی یہ صدمہ برداشت نہ کر سکی اور شادی کی رات ہی فوت ہو گئی۔ میر تقی میر بیٹی کو دیکھنے گئے اور کفن کی چادر ہٹا کر اپنی زندگی کا آخری شعر کہہ دیا:
اب آیا ہے خیال اے جان جان اس نامرادی میں
کفن دینا تجھے بھولے تھے اسباب شادی میں
حاتم نے نرغس کو میکے جانے پر پابندی عائد کردی اور ساتھ میں اس کے ماں باپ کو اپنے گھر میں آنے سے روک لگا دی۔ حاتم کا یہ ظالمانہ قدم نرغس کے لیے گویا موت کے برابر تھا۔ جس باپ نے اپنی ساری زندگی مزدوری کرکے اپنی بیٹی کو اس مقام پر پہنچایا تھا، آج اسی سے ملنے پر پابندی لگائی گئی۔ نرغس سوچ رہی تھی کہ آخر ہم کس سماج کا حصہ ہیں؟ کیا ہمارا مذہب اسی بات کی تعلیم دیتا ہے؟ کیا یہاں کوئی واعظ نہیں جو لوگوں تک صحیح بات پہنچائے؟
نرغس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، وہ بلا اپنے ماں باپ سے ایسی دوری کیسے برداشت کر سکتی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ سے ملنے کا فیصلہ کرتی ہے اور اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ بیٹی کی جدائی میں سلیم الہی کا برا حال تھا۔ اپنے لخت جگر کو گلے سے لگا کر سلیم نے بہت رویا اور کہتا رہا کہ نرغس میں نے تمہاری شادی کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ حاتم کو جب اس بات کا علم ہوا، وہ ننگے پاؤں نرغس کے گھر گیا اور اس نے اپنے سسر سلیم الہی کی بڑی بےعزتی کی اور ساتھ میں نرغس کو بہت مارا اور گھسیٹتے ہوئے گھر لے گیا۔ یہ سارا تماشہ پڑوسی دیکھ رہے تھے ۔ سلیم بے ہوش ہوگیا اور پڑوسیوں نے سلیم کو اسپتال پہنچا دیا۔
رخسانہ نے بھی نرغس کی خوب خبر لی۔ ماں بیٹے نے مل کر نرغس کا زدکوب کیا۔ بے بس نرغس اللہ سے فریاد کر رہی تھی کہ اس نے نرغس کو دنیا میں بیٹی بنا کر کیوں بھیجا؟ آخر کیوں اس حوا کی بیٹی کے ساتھ یہ ظلم عشروں سے جاری ہے؟ مگر روکنے والا کوئی نہیں ہے۔
اپنے شوہر اور ساس کے اس ناروا سلوک سے تنگ آکر نرغس اپنے سسرال کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ وہ ان ظالموں کے ساتھ آگے کی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ وہ اس گھر میں بہو نہیں بلکہ کمانے والی نوکرانی کے برابر تھی حالانکہ نرغس نے اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیا تھا مگر بد قسمتی سے اس کی ساس اور شوہر نے ہمیشہ اس کی بےعزتی کی۔ کافی سوچنے کے بعد نرغس نے اپنے سسرال کو ہمیشہ کے لئےالوداع کہہ دیا۔ نرغس سیدھےاسپتال جاتی ہے جہاں اس کا باپ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ دراصل اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی بیٹی کی بےعزتی کو سلیم برداشت نہ کر سکا اور صدمے میں چلا گیا۔ نرغس کو دیکھ، سلیم الہی کی پرنم آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہونے لگی اور سلیم الہی اس ظالم دنیا کو چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا کر ملتا ہے۔ اب نرغس اپنی ماں کے ہمراہ رہنے لگی۔
چند سال بعد نرغس دیکھتی ہے کہ شہر میں عورتوں کے خلاف ذہنی و جسمانی تشدد اور جہیز کو لے کر کچھ لوگ جمع ہوئے تھے اور ایک آدمی زوردار لہجے میں یہ نعرے لگا رہا تھا–” جہیز ایک لعنت ہے”__ ” عورتوں کے خلاف جسمانی تشدد بند کرو، بند کرو” ! جب نرغس نے غور سے دیکھا تو وہ اس کا شوہر حاتم تھا اور کچھ دن بعد نرغس اخبار پڑھتے پڑھتے چونک گئی۔ اخبار میں کچھ اس طرح لکھا تھا۔۔
” شہر کےمشہور و معروف سماجی کارکن، جس نے عورتوں کے حقوق اور جہیز جیسی لعنت کے خلاف ہمیشہ اپنی آواز بلند کی ہے ، ان کی خدمات کی قدر کرتے ہوئے ریاستی حکومت نے حاتم کوبہترین سماجی کارکن کے اعزاز سے نوازا ”
فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ