ریحانہ کوثر ریشی(پونچھ، جموں)
خطہ جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں لو البیلا محلہ چپراں کی سولہ سالہ باشندہ رخسانہ کوثردسویں جماعت کی ایک پیرسے معذور طالب علم ہے۔اس نے اپنی تعلیم میں آنے والی پریشانیاں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ”مجھے حصول تعلیم کے لئے اپنے اسکول جانے میں بہت ساری دشواریاں پیش آتی ہیں۔ میرے ا سکول کا نام لورن ہائی سکینڈری اسکول ہے، یہ میرے گھر سے پانچ کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ میں یہ سفر اپنے ایک پیر اور لاٹھی کے سہارے روزانہ پیدل چل کر اسکول پہنچتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں تقریباً روزانہ ہی اپنی کلاس میں دیر سے پہنچتی ہوں۔ میرا سارا وقت اسکول آنے جانے میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔“ رخسانہ ایک سوال کے جواب میں مزید کہتی ہے کہ”میں جب بھی کسی گاڑی والے کو روکنے کے لیے ہاتھ دیتی ہوں تو کوئی بھی ڈرائیور میری معذوری کی وجہ سے گاڑی نہیں روکتا ہے، کبھی گاڑی میں بیٹھ بھی جاتی ہوں تو مجھے لوگوں سے کئی طرح کی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ میں خاموشی سے اپنا سر جھکا کر ان کی باتیں برداشت کرتی رہتی ہوں، میری سہلیاں بھی میری معذوری کا مذاق اڑاتی ہیں۔حالانکہ جب لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں تب میری ہمت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، کیونکہ میرا خواب تعلیم حاصل کرکے ایک استانی بننا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنے معاشرے اور علاقے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کروں، انہیں یہ بتاؤں کہ معذوروں کی مجبوریاں کیا ہوتی ہیں؟ ان کا مذاق بنانے کے بجائے ان کی خدمت کرنا چاہئے کیونکہ معذور کوئی بھی کبھی بھی ہوسکتاہے۔میں آئے دن مشاہدہ کرتی ہوں کہ جب میری کلاس میٹ مجھے راستے میں چھوڑ جاتی ہیں، میں اس وقت رونا اور چیخنا شروع کر دیتی ہوں کیونکہ نہ ہی کوئی مجھے گاڑی میں بٹھا تا، نہ ہی کوئی مجھے ساتھ چلنے دیتا، مجھے لولی اور لنگڑی کے نام سے پکارا جاتا ہے، سمجھ نہیں آتی کہ معاشرے کے لوگوں نے تعلیم تو حاصل کر لی ہے لیکن انسان بننے میں ناکام کیوں ہیں؟“
”میں اکثر اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ کاش مجھے بھی گورنمنٹ نے کوئی ذریعہ دیا ہوتا جس کی وجہ سے میں اپنی پڑھائی مکمل کرپاتی۔ آجکل معذوروں کو اسکوٹی، ویل چیئر اور دیگر کئی طرح کی سہولیات دی جاتی ہیں، مگر مجھے آج تک کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں ہوئی۔ میں ایک معذور ہو کر اگر تعلیم حاصل کر رہی ہوں تو میری تعلیم کے لئے مناسب انتظام ہونا چاہیے، آخر میں محکمہ تعلیم، محکمہ سوشل ویلفیئر سے میری یہ التجا ہے کہ میری معذوری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسا ذریعہ بنایا جائے جس سے میں اپنے اسکول تک جا پاؤں، اور اپنے خوابوں کو تعبیر کا جامہ پہناکر اپنے ملک وریاست کی خدمت کر سکوں۔“ رخسانہ کوثر کی والدہ تعظیم اختر نے بتایا کہ”رخسانہ بچپن سے معذور ہے۔ہم بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی میسرہونا بہت مشکل ہوتا ہے،ہم اس دور درازکے برفیلے علاقہ میں رہ کر اپنی زندگی بہت مشکل سے جیتے ہیں۔میرے باقی بچے بچیاں محنت مزدوری کرکے اپنی پڑھائی پوری کرنے میں لگے ہیں۔ وہیں رخسانہ کوپڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن اس کوا سکول جانے اور آنے میں بہت ساری مشکلات پیش آتی ہے۔ اسے اسکول جانے کا بے پناہ شوق ہے مگر اس کا شوق کیسے پورا ہو پائے گا؟ میری بیٹی پڑھنے کی کافی کوشش کرتی ہے لیکن اس کا اسکول بہت دور ہے۔ یہ گھر سے اسکول پیدل آمد ورفت کرتی ہے،اس کے پورے پیر میں شدید درد ہو تا ہے جس کی وجہ سے یہ پوری رات روتی رہتی ہے، مگر دوسرے دن پھر سے ا سکول جانے کی ضد کرتی ہے۔ کیونکہ اسے اپنا خواب پورا کرنا ہے۔ میری بیٹی کا خواب کیسے پورا ہوگا؟ اس نادان کو سمجھانا مشکل ہے۔ اس کے پاس اسکول کا کارڈ بھی ہے پھر بھی اس سے گاڑی کا بہت زیادہ کرایہ لیا جاتا ہے۔ ہم غریب لوگ اتنا پیسہ کہاں سے لائیں گے؟ میں کہنا چاہتی ہوں کہ میری معذور بیٹی کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
مقامی بائیس سالہ نعیم اختر کہتی ہیں کہ میرے گھر کے پاس سے رخسانہ کوثر کا ہر روز گذر ہوتا ہے۔اس کے اسکول جانے کا راستہ یہی ہے۔ میں اس کو روز دیکھتی ہوں کی یہ پیدل ہی چل کر جا تی ہے۔ ایک دن یہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر رو رہی تھی۔ میں نے کی وجہ پوچھی تو یہ اور بھی زیادہ زور سے رونے لگی۔ کافی اسرار کے بعد اس نے وجہ بتائی کہ میری ٹانگ میں بہت زیادہ درد ہو رہا ہے۔ میں اپنے گھر تک کیسے پہنچ پاؤں گی؟ دیدی آپ مجھے میرے گھر تک پہنچا دو گی؟ تو میں نے اس بات پر اتفاق کیااور میں جب اسے لے کر اسکے گھر تک گئی تو مجھے اس کی کہانی کے بارے میں پتہ چلا۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ کیا معذور لڑکیوں کے لئے آج کے اس ڈیجیٹل دور میں بھی کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہے؟ کیا اس بچی کے لئے ایسا کوئی ذریعہ حکومت کے پاس نہیں ہے جس سے وہ اپنی تعلیم حاصل کرنے کے خواب کو مکمل کرسکے؟ مولوی فرید ملک خود بھی جسمانی طور پر معذور ہیں مگر ذہنی اعتبار سے وہ صحت مندوں سے بھی کئی گنا زیادہ سماجی اور تعمیرِملت کے کاموں میں مصروف ہیں۔معذوروں کے حقوق کے لئے وہ وقتاًفوقتاً ضلع ہیڈ کواٹر پونچھ، جموں، سری نگر اور دہلی تک بھی جاتے رہتے ہیں۔ اس تعلق سے انہوں نے بتایا کہ”ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے ملک میں معذوروں کی تعدادتقریباً 31 ملین ہے ان میں خواتین، لڑکیاں، بچے،بزرگ سبھی شامل ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان تمام خواتین، لڑکیوں اور بچیوں کو گھر یلو سطح پر بھی تشدد کا سامنا رہتا ہے“۔قانونی تحفظ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان خواتین، لڑکیوں اور جنہیں کوئی معذوری ہے انہیں نہ صرف گھر کی سطح پر تشدد کا سامنا رہتا ہے بلکہ وہ جسمانی اور ذہنی اذیت سے گزرتی ہیں۔
ان پر تشدد کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے یہ ہر قسم کے تشدد سے محفوظ ہو سکیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی استطاعت کا احترام نہ کیا جانا، مذاق اڑانا، ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا، معاشرے میں ان کی قبولیت کا کم ہونا، تعلیم کے مواقع فراہم نہ کرنا،صحت کا خیال نہ رکھنا، علاج و معالجہ نہ کروانا، یہ تمام چیزیں ان کی ذہنی صحت کو متاثر کر رہی ہیں۔ایسے میں ضروری ہے کہ معذوروں کو پورا پورا حق دیاجائے،ان کو ضروری چیزیں مہیاکرائی جایں۔ خصوصی طور پر جسمانی معذوروں کو تعلیمی معذور بننے سے بچایا جائے۔ان کے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2022کے تحت تحریرکیا گیا ہے۔(چرخہ فیچرس)