وادی کشمیر جو کہ ماضی میں پیر وأر کے نام سے جانی جاتی تھی، اب مختلف جرائم کی آماجگاہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران یہاں کے سماج کا تانا بانا ہی بکھر کے رہ گیا ۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ پیر وأر کے مصداق ہماری وادی کشمیر اب مختلف سماجی جرائم کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ آئے روزایسی خبریں موصول ہورہی ہیں جن کا تصور کرنے سے بھی ماضی میں انسانی روح کانپ اُٹھتی تھی اور ضمیر زندہ دفن ہوجانے کا احساس کرتا تھا لیکن اب صورتحال بالکل تبدیل ہوکر رہ گئی ہے اور حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے وادی کشمیر منشیات جیسے ناسور کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ کشمیر کی نئی نسل کا ایک بڑا حصہ اس ناسور میں مبتلا ہے ۔ چند روز قبل مرکزی سرکار کی جانب سے جو اعداد و شمار ظاہر کئے گئے اُن کے مطابق جموں کشمیر میں فی الوقت دس لاکھ لوگ منشیات کے عادی ہے جو کہ سماجی حلقوں اور ذی حس طبقے کیلئے کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے ایسے جرائم ریکارڈ ہورہے ہیں کہ انسانی ضمیر لرزنے لگتا ہے۔ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، قتل جیسے جرائم کا ماضی میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اب کے دنوں میں یہ کشمیر میں معمول کی بات ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران وادی کے مختلف علاقوں میں ایسے لرزہ خیز واقعات و حادثات رونما ہوئے جن سے پوری انسانیت شرمسار ہوگئی ہے۔ سماج کے ایک طبقہ کا یہ دعویٰ ہے کہ نوجوانوں کا منشیات میں ملوث ہونا اور جرائم کا ارتکاب کرنا ‘ اُن کی گھریلو زندگی میں ایک بڑے خلا کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے نوجوانوں کو وقت پر والدین کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے آج کا یہ دن دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس طبقہ کا ماننا ہے کہ موجودہ زندگی کافی تیز رفتا رہوچکی ہے جس میں ہر ایک شخص اپنی ذات کو منوانے کیلئے دن رات ایک کررہا ہے تاہم اسی دیکھا دیکھی میں سماج کا ایک وسیع طبقہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں نہ صرف غافل ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر متعدد ایسے والدین ہوں گے جو اگرچہ اپنے بچوں کے مستقبل کے تئیں کافی فکر مند دکھائی دیتے ہیں ، اُن پر لاکھوں کی رقم خرچ کرنے کیلئے اپنا دن رات ایک کرتے ہیں تاہم ان بچوں کا بھر وقت احتساب کرنے کیلئے والدین کے پاس وقت نہیں ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو رفتہ رفتہ خوفناک تباہی کا پیش خیمہ ثاثت ہوتا ہے۔ بھر وقت اگر کسی فرد کو رہنمائی نہ ملے تو یقیناً مستقبل میں یہ شخص نہ صرف اپنی ذات اور اپنے گھر کیلئے بلکہ پورے سماج کیلئے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال جس میں ہماری نئی نسل کا ایک بڑا حصہ بہہ چکا ہے، کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ والدین نے اپنی ذمہ داریاں وقت پر ادا کرنے میں انتہائی غفلت شعاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارا سماج ایک ایسے مقام پر اس وقت کھڑا ہے جہاں ہمیں اس تباہی سے بچنے کیلئے کوئی راہ نجات دکھائی نہیں دیتی ہے لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ ابھی بھی بہت کچھ بدلا جاسکتا ہے۔ منشیات کے عادی نوجوانوں کو ابھی بھی راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔ سماج جس عدم توازن کا شکار ہے، اُس میں آج بھی توازن لانے کی راہیں نکالی جاسکتی ہیں۔ بس کمر باندھنے کی ضرورت ہے۔ ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی دیر ہے۔ ادائیگی کیلئے اُٹھ کھڑے ہونے کی دیر ہے۔ والدین کو الرٹ ہونے کی ضرورت ہے۔ سب کچھ بدلا جاسکتا ہے۔نااُمیدی کفر ہے۔