فاضل شفیع فاضل
مورخین تقریباً متفق ہیں کہ آپؒ 80ھ کو کوفہ میں پیدا ہوئے۔ تقریباً اس ل کہ ایک شاذ قول 61ھ کی ولادت کا بھی ہے جسے کسی طرح کی تائید حاصل نہیں۔ پھر یہ آپؒ کے سن وفات سے بھی مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ یہ متفقہ امر ہے کہ آپؒ 150ھ سے قبل فوت نہیں ہوئے اور اکثر مورخین کا کہنا ہے کیا آپؒ کا انتقال خلیفہ منصور کے مبتلاآلام کرنے کے بعد ہوا۔ اگر 61ھ والی روایت کو تسلیم کر لیا جائے تو منصبِ قضاء کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے ابتلاء کا یہ واقعہ نوّے سال کی عمر میں پیش آیا ہوگا۔ حالانکہ90 سالہ پیر فرتوت کو ایسا کلیدی منصب کبھی نہیں سونپا جا سکتا۔ اور اگر پیش بھی کیا جاتا تو وہ بڑی آسانی سے پیرانی سالی کا عزر پیش کرکے آپ گلو خلاصی کرا سکتے تھے۔ حالانکہ کسی بھی روایت میں مذکور نہیں کہ آپؒ نے یہ عذر پیش کیا۔ پس 61ھ والی روایت نہایتِ عمر والے بیان سے کسی طرح مطابق نہیں اور تمام مورخین اس کے ذکر پر متفق ہیں۔
آپؒ کے والد ماجد ثابت بن زوطی فارسی تھے۔ اس طرح آپؒ فارسی النسب ہوۓ۔ آپ کے دادا اہل کابل سے تھے۔ جب عربوں نے اس علاقوں کو فتح کیا تو ثابت قید ہو کر بنی تیم بن ثعلبہ کے غلام بنے۔ پھر آزاد کر دیے گئے اور اس قبیلے کے” مولیٰ” قرار پائے۔ ولاء کی نسبت سے آپ تمیی کہلائے۔ جیسا کہ آپؒ کے پوتے عمر بن ابی حنیفہؒ کی روایت ہے مگر آپ کے دوسرے پوتے عمر بن حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ کا نسب نامہ یہ ہے۔ ” کہ ہمارا خاندان کبھی غلام نہیں رہا”۔ بلاشبہ امام ابو حنیفہؒ کہ دونوں پوتے آپ کا نسب بیان کرنے میں بظاہر مختلف اللسان ہیں۔ اول الزکر کے نزدیک ثابت کے والد کا نام زوطی تھا جبکہ ثانی الزکر نعمان بتاتے ہیں۔ اسی طرح پہلے کے نزدیک وہ غلام رہ چکے تھے مگر دوسرے قطعی طور سے اس کی نفی کرتے ہیں۔ الخیرات الحسان کے مصنف نے دونوں متضادر روایات میں یوں تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے کہ آپ کے دادا کے دو نام ہوں زوطی اور نعمان۔ اور ثانی الزکر کی مراد غلامی کی نفی سے یہ ہو کہ آپ کے والد غلام نہ تھے۔ دادا سے نفی مقصود نہیں۔
صحیح یہی ہے کہ آپ فارسی تھے نہ عربی نہ کابلی مگر اسے آپؒ کی عظمت و شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح آپ کے دادا کے غلام ہونے یا نہ ہونے کی بحث بھی لاطائل محض ہے۔ جب یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّمہ ہے کہ آپ اور آپ کے والد پیدائشی طور پر آزاد تھے۔ کیونکہ آپ کے والد ماجد کے غلام ہونے کی روایت کسی طرح اعتماد کے قابل نہیں لیکن آپ کے عزو وقار ، علمی وجاہت اور ذاتی شرافت میں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے دادا یا والد غلام رہ چکے تھے۔ بلکہ بذات خود آپ کے غلام ہونے سے بھی ان اوصاف میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا اس لیے کہ آپ کا عزو وقار، حسب و نسب اور مال و منال کا مرہونِ منت نہ تھا بلکہ یہ مرتبہ عالی آپ کو اپنے ذاتی اوصاف و خصائل، ذہانت و فطانت اور درع و تقویٰ کی وجہ سے حاصل ہوا تھا۔ جس دور میں امام ابو حنیفہؒ پروان چڑھے علم زیادہ تر موالی و اعاجم میں پایا جاتا تھا۔ وہ نسبی فخر سے محروم تھے۔ خدا نے انہیں علم کا فخر عطا کیا جو نسب کے مقابلہ میں زیادہ مقدس، زیادہ پھیلنے پھولنے والا، زیادہ پائیدار اور نام زندہ رہنے والا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی کہ اولاد فارس علم کی حامل ہوگی۔ آپؒ کوفہ میں پروان چڑھے اور وہیں مقیم رہ کر زندگی کا بیشتر حصہ تعلیم و تعلم اور جدل و مناظرہ میں گزارا۔ امام ابو حنیفہؒ کے اکثر سیرت نگار لکھتے ہیں کہ آپ کے والد عالمِ طفولیّت میں حضرت علیؓ سے ملے اور امام ابو حنیفہؒ کے دادا نے عید نوروز کے دن حضرت علیؓ کی خدمت میں فالودہ پیش کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا خاندان ثروت و دولت سے بہرہ ور تھا۔ ایک امیر آدمی ہی ایسا عمدہ حلوہ خلیفۂ وقت کی خدمت میں پیش کر سکتا ہے۔یہ بھی منقول ہے کہ حضرت علیؓ نے ثابت اور ان کی اولاد کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ اس سے صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ دعا کے وقت وہ مسلمان تھے۔ کتب تاریخ میں صراحتہً مذکور ہے کہ ثابت مسلمان پیدا ہوۓ بنا بریں امام ابو حنیفہؒ کی تربیت ایک خالص اسلامی گھرانے میں ہوئی اورشاذ بیانات کو چھوڑ کر علماء کے نزدیک یہ ایک مسلمہ امر ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کی آنکھ کھلی تو انہوں نے مذاہب و ادیان کی ایک نئی دنیا دیکھی۔ غور و فکر کرنے سے ان سب کی حقیقت آپ پر آشکار ہوگئی۔ آغاز شباب میں ہی آپؒ نے مناظرہ بازوں سے معرکہ آرائی شروع کر دی اور اپنی فطرتِ مستقیمہ کےحسبِ ہدایت اہل بدعت وضلالت کے مقابلہ میں اتر آئے مگر بایں ہمہ آپؒ تجارتی مشاغل میں منہمک تھے اور علماء سے صرف واجبی روابط رکھتے تھے بعض علماء نے آپ میں عقل و علم اور ذکاوت و فطانت کے آثار دیکھے اور چاہا کی یہ بہترین صلاحیتیں صرف تجارت کی نظر نہیں ہونا چاہئیں۔ امام ابو حنیفہؒ خود فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت شعبیؒ کے یہاں میرا گزر ہوا۔ انہوں نے مجھے بلایا کہنے لگے۔ آپ کا آنا جانا کہاں ہوتا ہے؟ میں نے کہا بازار آتا جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا میری مراد بازار سے نہیں بلکہ علماء کے ہاں آنے جانے سے ہے۔ میں نے کہا میری آمدورفت علماء کے یہاں بہت کم ہے۔ انہوں نے فرمایا غفلت نہ کیجئے۔ علم کا درس ومطالعہ اور علماء کی صحبت آپ کے لئے از بس ضروری ہے کیونکہ آپ میں حرکت و بیداری کے آثار دیکھتا ہوں۔ میرے دل پر یہ بات اثر کر گئی۔ میں نے بازار کی آمد و رفت چھوڑ کر علم پڑھنا شروع کیا۔ خدا تعالی نے ان کی بات سے مجھے فائدہ پہنچایا۔ امام ابو حنیفہؒ نے حماد بن ابی سلیمانؒ کے حلقۂ شاگردی کا دامن تھامے رکھا۔ انہیں سے فقہ سے منتخرج ہوئے اور جب تک وہ زندہ رہے ان کے وابستہ فتراک رہے۔ امام ابو حنیفہؒ نے اپنے استاد حمادؒ سے وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دس سال آپ کی صحبت میں رہا۔ ایک رات حمادؒ کو اطلاع ملی کہ بصرہ میں ان کا کوئی عزیز فوت ہوگیا ہے۔ بڑا مال چھوڑا اور حمادؒ کے سوا ان کا کوئی وارث نہیں ہے۔ آپ نے مجھے اپنی جگہ پر بیٹھنے کا حکم دیا۔ ان کا جانا تھا کہ میرے پاس چند مسائل ایسے آئے جو میں نے آج تک ان سے نہ سُنے تھے۔ میں جواب دیتا جاتا اور اپنے جوابات لکھتا جاتا تھا۔ جب حمادؒ آئے تو میں نے وہ مسائل پیش کر دیے۔ وہ کوئی ساٹھ مسئلے تھے۔ چالیس میں انہوں نے میرے ساتھ اتفاق کیا اور بیس میں میرے مخالف جواب دیے۔ میں نے حلف اٹھایا کہ ان کی تاحینِ حیات ان سے الگ نہ ہوں گا۔ پس میں اسی عہد پر قائم رہا اور تازہ زندگی ان کے دامن سے وابستہ رہے چنانچہ آپ پورے 18 سال امام حمادؒ کی صحبت میں رہے۔
امام ابو حنیفہؒ میں چار تجارتی اوصاف پائے جاتے تھے جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صرف ایک اونچے درجہ کے عالم دین ہی نہ تھے بلکہ ایک مثالی تاجر بھی تھے:
ا۔ آپ دل کی غنی تھے،حرص و آز کبھی آپ پر غالب نہ آ سکی شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بڑے امین تھے اور امانت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں کبھی اپنے نفس کا لحاظ نہ کرتے۔ بہت فیاض اور بخل و امساک کی بیماری سے محفوظ تھے۔ بہت متدین، عابد،شب زندہ دار، صائم النہار اور قائم اللیل تھے۔
امام ابو حنیفہؒ کی زندگی کا آخری حصہ قید میں گزرا۔ قیدوبند کی صعوبتوں پر سب راوی متفق البیان ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فتویٰ نویسی اور درس و تدریس کا کام چھوڑ دیا۔ روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے کیا آپ زدکوب کے بعد قید خانہ میں فوت ہوئے یا قید خانہ میں زہر خورانی سے آپ کی موت واقع ہوئی۔ ایک دوسری روایت کے پیش نظر آپ موت سے قبل رہا کر دیے گئے اور اپنے گھر میں فوت ہوئے۔ اس حالت میں لوگوں کو ملنے جلنے اور درس و تدریس کی ممانعت تھی۔ یہ سب روایات کتب مناقب میں درج ہیں۔
داؤد بن راشد واسطی کا بیان ہے کی جب منصب قضا کو قبول کرنے کے لئے امام صاحبؒ کو جسمانی تکلیف دی جارہی تھی تو میں موجود تھا۔ ہر روز قید خانے سے باہر نکال کر آپ کو دس کوڑے مارے جاتے تھے۔ اسی طرح آپ کو کل 110 کوڑے مارے گئے۔ آپؒ سے کہا جاتا تھا قاضی بننا قبول کیجیے۔ آپؒ فرماتے میں اس کے لائق نہیں۔ جب مسلسل کوڑے مارے جانے لگے تو آپ نے چپکے چپکے کہنا شروع کیا۔” اے اللہ اپنی قدرت کاملہ سے ان کی شرمجھ سے دور کردے”۔ جب نہ مانے تو آپؒ کو زہر کھلا کر مار دیا گیا۔ ایک اور روایت یہ ہے کہ جب آپؒ قید و بند کے مصائب سے دوچار تھے تو خلیفہ کے بعض خاص امراء نے آپ کی سفارش کی۔ تب آپؒ کو قید خانے سے رہا تو کردیا گیا لیکن فتویٰ دینے، لوگوں کی ملاقات کرنے اور گھر سے باہر جانے کی ممانعت کردی۔ وفات تک آپؒ کی یہی حالت رہی۔ آپؒ کی وفات ایک صدیق و شہید کی موت تھی۔ یہ 150 ہجری کا واقعہ ہے۔ دوسری روایت کے مطابق 151ھ اور تیسری میں153ھ مزکور ہے۔ مگر پہلی روایت ہی قرینِ صحت و صواب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس باضمیر مرد مجاہد، دینی ذوق سے آشنا صوفی اور صاحبِ عقل نے مر کر ہی راحت پائی۔ جیتے جی ہزاروں مصائب سے دوچار ہوئے۔ آپؒ وصیت کرتے ہیں کہ انہیں غیر مغصوب حلال و طیب زمین میں دفن کیا جائے اور اس زمین میں ہرگز دفن نہ کیا جائے جس کے غصب کرنے سے امیر متہم ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ جب منصور کو اس کا علم ہوا تو بولا” مجھے ابو حنیفہؒ سے کون چھڑائے گا وہ زندہ ہوں یا مردہ”۔
اس میں شبہ نہیں کہ علم و فضل اور دین و اخلاق کی بھی ایک روحانی عظمت ہے جس کی تاثیر جا و سلطنت سے کسی طرح کم نہیں۔ اسی لئے فقیہِ عراق اور امام اعظمؒ کے جنازہ پر پورا بغداد امنڈ آیا۔ جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد پچاس ہزار بتائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ منصور نے بھی آپ کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی، نہ معلوم یہ دین و اخلاق یا تقوےٰ کے جلال و جمال کا اعتراف تھا یا فقط نمائش۔ ممکن ہے کہ دونوں باتیں ہوں۔ بہر کیف آپؒ کی عظمتِ شان ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔
فاضل شفیع فاضل